Sunday, October 23, 2011

بچوں میں سائنس و ٹیکنولوجی کا شعور


سائنس و ٹیکنولوجی کے میدان میں ترقی ہر ملک کے لئے ضروری ہے اور اس کے لئے ہماری نوجوان نسلخصوصاً بچوں میں سائنس و ٹیکنولوجی کا شعور بیدار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ بچوں کو جو کچھ شروع سے سمجھایا جاتا ہے اور جو کچھ وہ دیکھتے ہیں وہ بھی ویسا ہی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ہر انسان کا مستقبل میں بچپن اور جوانی کے اثرات اور تجربات سے گہرا تعلق رکھتا ہے۔ اگر بچوں کو سائنس و ٹیکنولوجی کے ماحول میں رکھا جائے جہاں وہ روزانہ سائنسی تجربات سے ہمکنار ہوتے ہوں تو وہ ان چیزوں میں دلچسپی لیں گے اور اس طرح بچوں میں سائنس کا شعور پیدا ہوگا۔ ان بچوں کی تربیت ایسے ماحول میں کی جائے جہاں ان کا جوش وجذبہ سائنس وٹیکنولوجی سے وابسطہ ہو تو ملک میں تقریباً ہر دو سے چار دن میں ایک نئی ایجاد سامنے آئے گی۔
سائنس کو اردو میں علم کہتے ہیں اور علم کا مطلب ہوتا ہے جاننا یا آگہی حاصل کرنا، اپنے اردگرد کے ماحول کا مشاہدہ کرنا، مختلف قدرتی چیزوں کے بارے میں سوچنا اور پھر اس پر تجربہ کرنے والے کو سائنسدان کہتے ہیں یعنی سائنسدان وہ ہوتا ہے جو مشاہدہ کرتا ہے اور سوچ کر کوئی نتیجہ اخذ کرتا ہے۔ یہ سب کچھ بچے تو بڑی آسانی سے کر سکتے ہیں اور آج کل کے بچے تو دیکھتے ہی دیکھتے بڑی بڑی چیزیں بنا لیتے ہیں۔ بچوں میں سائنس و ٹیکنولوجی کا شعور بیدار کر کے ہم متعدد ایجادات کو حاصل کر سکتے ہیں۔

Saturday, October 15, 2011

ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی ایک عہد ساز سائنسدان

وطن عزیز پاکستان کو خدا تعالیٰ نے بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے ان میں سے ایک نعمت ملک کی عوام میں موجود بے پناہ ذہانت اور ہنر ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر، ڈاکٹر ثمر مبارک مند، حکیم محمد سعید شہید اور دیگر کا تعلق اسی ارض پاک سے ہے جن کی صلاحیتوں اور قابلیتوں کا ایک زمانہ معترف ہے۔ ان تمام افراد کے بارے میں جان کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں ذہانت، صلاحیت اور قابلیت کی کمی نہیں۔ اس وقت میں جس عظیم اور قابل ہستی کا تذکرہ کرنے لگا ہوں ان کا نام مرحوم ڈاکٹر سلیم الزمان صدیقی ہے اور یہ وہ قابل انسان تھے جنہوں نے نہ صرف پاکستان و ہندوستان بلکہ دنیا بھر میں اپنے سائنسی تجربات کا لوہا منوایا۔ پاکستان ان ہی کی بدولت سائنسی اور صنعتی تحقیق کے راستے پر گامزن ہوا۔

Monday, October 10, 2011

کاربن کریڈٹ ماحول کا تحفظ بھی کاروبار بھی


کاربن کریڈٹ سے مراد ایک معاہدہ ہے جس کی رو سے ایک ملک دوسرے ملک کو ایک ٹن کاربن ڈائی آوکسائیڈ تک خارج کرنے کی اجازت دیتے ہیں اور اس ہدف سے کم کاربن ڈائی اوکسائیڈ کے اخراج پر کریڈٹ دیا جاتا ہے۔ یہ کریڈٹ کسی بھی ملک کی انتظامیہ ہی نہیں بلکہ عام کسان اور صنعت کار بھی کم کاربن ڈائی اوکسائیڈ یا گرین ہاﺅس گیسز کے اخراج کے ذریعے حاصل کر سکتے ہیں۔ اس کاربن کریڈٹ کو دینے کا مقصد دنیا بھر میں کاربن ڈائی اوکسائیڈ اور ماحول پرمنفی اثرات مرتب کرنے والی دیگر گیسز پر قابو پانا ہے۔ کاربن کریڈٹ ایک ایسی چیز ہے جس میں آلودگی کو خریدا اور بیچا جاتا ہے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں کاربن ڈائی آوکسائیڈ کے اخراج میں سب سے زیادہ حصہ امریکہ، چین، بھارت، روس، جاپان، بھارت، جرمنی، برطانیہ، کینیڈا، جنوبی کوریا اور اٹلی کاہے۔وطن عزیز پاکستان خدا کے فضل و کرم سے ان ممالک میں شامل کیا جاتا ہے جو کاربن ڈائی اوکسائیڈ یا گرین ہاﺅس گیسز کا کم اخراج کرتے ہیں۔پاکستان کے مقابلے میں بھارت گیسزکا اخراج زیادہ کرتا ہے۔ پاکستانی صنعتکار اپنی صنعتوں کے عالمی سطح سے کم کاربن اخراج کے ذریعے ترقی یافتہ ممالک سے کاربن کریڈٹس حاصل کر سکتے ہیں۔

Tuesday, October 4, 2011

کسان، زراعت اور مسائل

زراعت پاکستان کے لئے ایک جڑ کی حیثیت رکھتی ہے، ملک کی 60 فیصد سے زائد آبادی زراعت کے شعبے سے وابستہ ہے۔ ملکی زرمبادلہ میں زراعت کا حصہ بائیس فیصد ہے۔ پاکستان میں پیدا ہونے والی کپاس، گندم، گنا اور چاول کی فصل بیرونی منڈیوںمیں خاص اہمیت رکھتی ہے اور ملک ان فصلوں کی بدولت قیمتی زرمبادلہ حاصل کرتا ہے۔ اس کے باوجود ملکی زرعی شعبے کی ترقی کی رفتار نہایت سست ہے۔ ہمارے مقابلے میں دنیا کے دیگر ملک زیادہ پیداوار دے رہے ہیں۔ اگر زرعی ترقی میں حائل رکاوٹوں پر غور کیا جائے تو کئی وجوہات سامنے آتی ہیں۔ہمارے کسان مہنگائی کے بوجھ تلے پھنسے جارہے ہیں، کھاد نہ صرف مہنگی ہو رہی ہے بلکہ کاشت کے دنوں میں ناپید ہو جاتی ہے، دیگر زرعی لوازمات بھی ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قیمتوں میں اضافے کے باعث مہنگے ہو رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں یوریا کھاد کی اوسط قیمت 1616 جبکہ ڈی اے پی کی اوسط قیمت 4046 روپے فی50 کلوگرام سے بھی زیادہ ہو گئی۔ ہماری حکومت نے زرعی ٹیکس اور دیگر کئی صورتوں میں زرعی اشیاءکو شدید مہنگا کر دیا ہے۔ غریب

Sunday, September 25, 2011

پاکستان صنوبر کے جنگلات کا دوسرا بڑا ذخیرہ

درخت اور سبزہ خدا کا دیا ہو وہ تحفہ ہیں جسے دیکھ کر انسان کی طبیعت خوشگوار اور دل کو راحت و سکون محسوس ہوتا ہے۔ درخت و سبزہ خوبصورتی و شادابی کا وہ منظر ہیں جس کا کوئی نعم البدل نہیں ملتا۔ دنیا میں جنگلات کی شرح 25، 30، 35 اور40 فیصد تک ہے جبکہ پاکستان میں یہ رقبہ چار اعشاریہ دو دو چار ملین ہیکٹر پر مشتمل ہے جو کل رقبہ کاصرف 5 فیصد ہے اور اسے بڑھانے کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے۔ پاکستان کے پہاڑی سلسلوں میںلگے الپائن، سب الپائن، جونیپر، سفیدہ اور دیودار کے اونچے اونچے درختوں خوبصورتی و حسن کا ایک الگ منظر پیش کرتے ہیں۔ پاکستان میں 5 ہزار 7 سو اقسام کے پودے، درخت اور جنگلات پائے جاتے ہیں۔ صرف چترال، کشمیر اور شمالی بلوچستان میں ہی 203 اقسام کے پورے اور درخت پائے جاتے ہیں جو ملک بھر کے کل درختوں کا چار فیصد ہیں۔ نسبتاً کم بلند ہمالیائی سلسلوں میں بارش زیادہ ہوتی ہے اور اسی سبب یہاں دیودار، پائن، گل لالہ اور شاہ بلوط یا بید مجنوں کے گھنے جنگلات کی بھرمار ہے۔


Monday, September 19, 2011

ستمبر16، اوزون کا عالمی دن

اوزون سورج کے گرد وہ تہہ ہے جو کہ سورج کی خطرناک الٹراوائلٹ بی شعاعوں کو نہ صرف زمین کی طرف آنے سے روکتی ہے بلکہ زمین پر اس کے نقصان دہ اثرات کا خاتمہ کرتی ہے۔ اوزون اوکسیجن کے تین ایٹمز کے ساتھ ایک شفاف اور نظر نہ آنے والی گیس ہے جو قدرتی طور پر فضا میں موجود ہوتی ہے۔ اوزون کی نوے فیصد مقدار زمین کی سطح سے پندرہ تا پچپن کلومیٹر اوپر بالائی فضا میں پائی جاتی ہے۔ مگر 1970ء کی دھائی میں یہ انکشاف ہوا کہ انسانوں کے بنائے ہوئے کچھ مرکبات اوزون کی اس تہہ کو تباہ کررہے ہیں۔

Friday, September 16, 2011

چقندر اور اسکے فائدے


Monday, September 12, 2011

ہماری زندگی پر ٹیکنولوجی کے اثرات

ٹیکنولوجی دنیا میں آئی اور اس نے انسان کو اپنا عادی بنا لیا، اب انسان ٹیکنولوجی کا عادی ہو چکا ہے اور اس کے بنا نہیں رہ سکتا۔ انسان ہمیشہ سے اپنے لئے آسانی ڈھونڈتا رہا ہے اور اس مقصد کے لئے طرح طرح کی نئی ٹیکنولوجی تیار کر لی۔ہماری زندگی میں ایجادات کا سلسلہ جاری ہے روزانہ بیسیوں چیزیں ایسی دیکھنے میں آتی ہیں جنہیں دیکھ کر انسان دنگ رہ جاتا ہے۔ زندگی کے مختلف شعبہ جات مثلاً زراعت، توانائی، تجارت، سفر اور رابطوں کے لئے ٹیکنولوجی نہایت اہم کردار ادا کر رہی ہے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہتر زرعی پیداوار کے لئے زرعی مشینری، توانائی کے حصول کےلئے جدید نیوکلر، شمسی اور ہوا کی توانائی کا استعمال شروع کر دیا گیا ہے۔انسان نے زمین سے اپنے سفر کا سلسلہ گھوڑے اور خچر سے شروع کیا اور اب جدید دور میں گاڑی، ریل گاڑی اور ہوائی جہاز پر سفر کر رہا ہے۔جدید دور کے انٹرنیٹ نے برقی پیغامات یعنی ای میل اور چیٹ کے ذریعے پیغام رسانی کو آسان بنا دیا ہے اور اس طرح انسانوں کے درمیان دوریاں ختم ہو گئی ہیں۔ انسان دنیا میں کہیں بھی بیٹھا ہو، اپنے کسی بھی عزیز سے ای میل اور چیٹنگ اور وائس چیٹ کے ذریعے بات چیت کر سکتا ہے۔

Friday, September 2, 2011

جنیاتی علوم اور انسانی زندگی

خدا نے ہر چیز کا ایک نظام بنایا ہے، سب چیزیں اسی نظام کے تحت چل رہی ہیں۔ سائنسدان گزشتہ کئی سالوں سے اس بات کی تحقیق کر رہے ہیں کہ انسان آخر کیسے وجود میں آیا اور یہ کیسے جی رہا ہے؟ ڈی این اے کی دریافت اور تحقیق نے یہ ثابت کر دیا کہ زندہ اشیا ایسی مکمل اور پیچیدہ ترتیب و ترکیب کا مرکب ہیں کہ یہ حادثاتی طور پر کسی اتفاق کے تحت وجود میں نہیں آسکتیں جب تک یہ کسی بڑے ماہر اور قادر مطلق بنانے والے کی کارگزاری نہ کہی جائے۔ اگر کسی مقام پر اینٹ، پتھر، گارا، مٹی، قالین، ایرکنڈیشنر، ٹی وی اور ریفریجریٹر اور دیگر سامان موجود ہو اور پھر اچانک ایک حادثہ یا اتفاقی واقعہ ایسا ہوجائے کہ یہ سب مل کر بادشاہ سلامت کا محل بن کر ابھر آئے، یہ جادو کی کہانی تو ہوسکتی ہے ایک سائنسی حقیقت کبھی نہیں ہوسکتی۔ ڈی این اے میں چھپے ہوئے اربوں کیمیائی حروف کوجان کر انسان کو اندازہ ہوا کہ ہر انسان کی الگ معلومات ہیں اور وہ جنوم میں ان کوڈ ہوتی ہیں جس کو جان کر ہرانسان کی پیدائش سے لے کر وفات تک کی تمام معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔ جنومز کے ذریعے ہر انسان کیالگ معلومات جیسے آباو اجداد کہاں سے آئے، اس کی اپنی شخصیت کیسی ہے، اس کے طبعی خدوخال، اس کی رنگت، اس کی موروثیت، نسل اور ذہنی استعداد وغیرہ کی مکمل تفصیلات موجود ہوتی ہیں۔ کیا بیماریاں ہیں یا کون سی بیماریاں ہونے کا امکان ہے۔

Sunday, August 21, 2011

ڈیری فارمنگ اور وسائل کی کمی


پاکستان ڈیری فارمنگ کے لحاظ سے دنیا میں ایک اہم مقام رکھتا ہے، وطن عزیز پاکستان میں ڈیری فارمنگ  میں سرمایہ کاری کے وسیع مواقع موجود ہیں۔۔دودھ کی بہترین پیداوار دینے والے ممالک میں ہندوستان، چین اور امریکہ کے بعد چوتھےنمبر پر پاکستان کا نام شمار کیا جاتا ہے۔پاکستان میں جن جانوروں سے دودھ حاصل کیا جاتا ہے ان میں، بھینسیں، بھیڑیں، بکریاں اور اونٹ شامل ہیں۔ قدرت نے ہمارے ملک کو اعلیٰ نسل کی بھینسوں اور گائیوں کی دولت سے نوازا ہے جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم سبز انقلاب برپا کر سکتے ہیں۔ ملک میں مویشیوں کی تعداد تقریباً پانچ کروڑ ہے جن سے سالانہ دودھ کی پیداوار 45 بلین لیٹر لی جاتی ہے۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق ملک میں بھینسوں کی تعداد دو کروڑ تریسٹھ لاکھ سے بڑھ کر دو کروڑ چوراسی لاکھ ہوگئی ہے اور بکریوں کی تعداد پانچ کروڑ چھپن لاکھ سے بڑھ کر چھ کروڑ انیس لاکھ جبکہ بھیڑوں کی تعداد دو کروڑ انچاس لاکھ کے مقابلے میں دو کروڑ پچپن لاکھ ریکارڈ کی گئی ہے جبکہ جی ڈی پی میں اس شعبے کا حصہ 11 فیصد ہے۔ عام مشاہدات کے مطابق ہمارے دودھیلے جانوروں (گائے، بھینس) کی اکثریت اوسطاً 5 سے 6 لیٹر دودھ یومیہ فی جانور پیدا کرتی ہے، جو کہ انتہائی کم اور غیر نفع بخش ہے۔
موجودہ صورتحال کے مطابق ہمارے مویشی پال زمیندار وسائل کی کمی اور افزائش حیوانات کے جدید علوم

Sunday, August 14, 2011

مرکری کے فوائد و نقصانات۔۔۔۔۔۔ حصہ آخر


مرکری کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے، متعدد اشیاءخاص کر تھرما میٹر میں اس کا استعمال پوری دنیا میں عام ہے۔ مرکری کا جیسے جیسے استعمال بڑھتا جا رہا ہے اس کے نقصانات کا بھی اندازہ ہو رہا ہے۔ مرکری انسانی زندگی کے لئے سخت نقصان دہ ہے۔ اس کے نقصان دہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ پانی میں حل نہیں ہوتا۔ مرکری کو مٹی میں دبا دیا جائے اور پھر نکالا جائے تو یہ ویسا ہی ہو گا جیسے اس کو رکھا گیا یعنی اس پر کسی بھی قسم کا کوئی فرق نہیں پڑتا جیسا کہ لوہا یا دوسری چیزیں مٹی میں گل سڑ جاتی ہیں۔ اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مرکری کا دواﺅں میں استعمال انسانی جان کے لئے کتنا تباہ کن ہے۔

Monday, August 8, 2011

مرکری کے فوائد و نقصانات۔۔۔۔۔۔ حصہ اول

مرکری ایک کیمیائی عنصر ہے جس کی علامت ایچ جی اورجوہری نمبر 80 ہے۔ اسے پارے کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ مرکری درجہ حرارت اور دبائو کے لئے معیاری حالات میں بھی مائع ہے۔ مرکری کے علاوہ برومین دھات منفی اڑتیس اعشاریہ تریاسی سینٹی گریڈ اور تین سو چھپن اعشاریہ تہتر سینٹی گریڈ پر ان حالات میں مائع رہتی ہے۔مرکری زیادہ تر مرکیورک سلفائیڈ کے طور پر دنیا بھر کے ذخائر میں پایا جاتا ہے۔ سندور زیادہ تر مرکیوریک سلفائیڈ سے کمی کی جانب سے حاصل کیا جاتا ہے۔ سپین اور اٹلی مرکری یا پارے کے روایتی ذرائع ہیں۔ اسپین المیڈین اور اٹلی اڈریا کی مرکری کی کانوں میں قدیم دور سے کام کر رہے ہیں، اسپین کی المیڈین 1850ء اور اٹلی کی اڈریا کی کانیں 1853ء میں مرکری کی طلب کے باعث کھودی گئی تھیں۔ کچھ مرکری چائنہ ، جنوبی پیرو اور دیگر مقامات سے حاصل کیا جاتا ہے۔دنیا بھر میں مرکری کا استعمال تھرمامیٹرز، بیرومیٹرز، سپیگمو مینو میٹرز، بجلی کے بٹن اور دیگرسائنسی آلات میں کیا جاتا ہے۔ مرکری کو روشنی کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ آج کل استعمال ہونے والے بلبز اور ٹیوب لائٹس میں مرکری استعمال کی جاتی ہے۔

Sunday, July 31, 2011

زراعت میں بینکاری کی اہمیت

زراعت پاکستان کا ایک اہم شعبہ ہے اور اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ملک کی برسرروزگار افرادی قوت میں سے تقریباً 45 فیصد افراد کاروزگار اسی شعبے سے وابستہ ہے اور ملکی جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ 22 فیصد ہے۔پاکستان سے حاصل ہونے والی فصلوں میں کپاس، گنا، گندم اور چاول وہ فصلیں ہیں جن کی بیرونی منڈیوں میں کثیر فروخت ہوتی ہے اور یہ پاکستان کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی اور دنیا کی مشہور فصلیں ہیں۔ پاکستان کا باسمتی چاول ذائقے اور صحت کے اعتبار سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ صنعتی ترقی کی جانب بتدریج منتقلی کے باوجود زراعت اب بھی ملکی معیشت کاسب سے بڑا شعبہ ہے جو ملک کے سماجی و اقتصادی ڈھانچے پرگہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ متعدد صنعتوں کی پیداوار کا دارومدار بھی زراعت پر ہے مثلاً کپاس کی بہتر پیداوار ہو گی تو کوٹن انڈسٹری کو خام مال دستیاب ہوگا۔ ہمارے حکمرانوں نے قومی معیشت کی بنیاد زرعی شعبے کو بھی بری طرح نظر انداز کیا حالانکہ چھوٹے کسانوں کو دوست پالیسیوں، ماحول دوست زراعت، پانی چوری کے خاتمے، وسائل کی منصفانہ تقسیم، حقیقی کسان منڈیوں کے قیام، بلا امتیاز زرعی ترقی اور پیداوار میں اضافے کے لئے آسان شرائط پر قرضے دے کر قومی معیشت اور زرعی پیداوار سے متعلق صنعتوں کو زبردست فروغ دیا جا سکتا ہے۔

Monday, July 25, 2011

فش فارمنگ، غذائی ضرورت اور کاروبار

پاکستان کے پاس بیش بہا قدرتی خزانے ہیں، جن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان اپنی تمام پریشانیوں کو دور کر سکتا ہے۔ ان خزانوں میں سے ایک سندھ اور بلوچستان سے منسلک 814 کلو میٹر لمبی ساحلی پٹی ہے، جو فش فارمنگ کے لحاظ سے قدرت کا بہترین تحفہ ہے اور سمندری خوراک کے حوالے سے نہ صرف ملکی بلکہ برآمداتی ضروریات کو پورا کرنے کی بھی بھرپور صلاحیت کی حامل ہے۔ ماہی گیری کو اس وقت دنیا میں ایک اہم صنعت کا درجہ حاصل ہے۔ دنیا میں 150 ملین افراد ماہی گیری کی صنعت سے وابستہ ہیں اور ایک غیر حتمی اندازے کے مطابق ایسے خاندان جن کا گزارہ اسی صنعت سے ہے کی مجموعی تعداد 45 کروڑ ہے۔ پاکستان میں پائی جانے والی مچھلی اور سمندری غذا کی بین الاقوامی مانگ کا اندازہ حال ہی میں پاکستان کے شہر کراچی کے ایکسپو سینٹر میں ہونے والی نمائش سے لگایاجاسکتا ہے۔

Sunday, July 17, 2011

تھری جی: ٹیلی کوم سروسز کی دنیامیں نئی ٹیکنولوجی

دنیا جدیدیت کی طرف سفر کر رہی ہے اور روز بروز نئی نئی ایجادات ہو رہی ہیں۔ انسان نے اپنی آسانی کے لئے کروڑوں ذرائع تلاش کر لئے ہیں۔ انسان اب زمین سے خلاءکی طرف کامیابی سے سفر کر رہا ہے۔ انٹرنیٹ اور موبائل فون کی بدولت روابط آسان ہو گئے ہیں، لوگ ایک ہی جگہ بیٹھے بیٹھے پوری دنیا سے بات کر سکتے ہیں۔ انفو کمیونیکیشن سروسز کی دنیا میں ٹیکنولوجی نے انقلاب برپا کر دیا ہے۔

Monday, July 11, 2011

جدید ٹیکنولوجی اور سر سبز انقلاب

زراعت پاکستان کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، اس لئے زرعی شعبے کی ترقی ملک کی ترقی ہے۔ دنیا جدیدیت کی طرف سفر کر رہی ہے اور ہم اب تک زراعت کے روایتی طریقوں کو اپنائے ہوئے ہیں۔ پاکستان کے بیشتر کسان ابھی تک ہل چلانے کے لئے بیلوں کا استعمال کر رہے ہیں جبکہ دنیا کے دیگر ممالک جدید ٹریکٹروں کا استعمال کرتے ہیں۔ ہمارے ملک کی فصلوں کی پیداوار ایک حد تک بڑھنے کے بعد رک گئی ہے مگر افسوس اس بات پرہے اس بات پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جا رہی ہے۔
حکومتی سطح پر زبانی کلامی زراعت کی ترقی کی باتیں ہورہی ہیں مگر اس معاملے میں سنجیدگی کا فقدان ہے۔ ملک میں جدید ٹیکنولوجی استعمال کرنے کے مشورے دیئے جاتے ہیں لیکن ٹیکس بھی لگا دیا جاتا ہے۔ کسان پہلے ہی غریب ہیں مہنگی ٹیکنولوجی کیسے خریدینگے؟ ان حالات میں کسانوں سے زیادہ پیداوار کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے۔ ہمیں کسانوں کی خوشی کا خیال رکھتے ہوئے کسانوں کو سستی ٹیکنولوجی مہیا کرنی چاہیئے تاکہ فصلوں کی پیداوار میں اضافہ کیا جا سکے۔

Monday, July 4, 2011

پیسچرائزاور غیر پیسچرائزڈ دودھ کا استعمال

ہماری زندگی میں کچھ چیزیںبہت خاص ہوتی ہیں اور ان کا متبادل بھی کوئی نہیں ہوتا، دودھ بھی انہی چیزوں میںسے ایک ہے۔ ہم سب اپنی زندگی کے سفر کا آغاز دودھ ہی سے کرتے ہیں۔ بچپنے سے لے کر بڑھاپے تک ہرانسان دودھ اور اس سے تیار کردہ مصنوعات کا استعمال کرتا ہے۔ دودھ میں انسان کو توانائی فراہم کرنے والے اجزاءمثلاًوٹامن اے ، بی اور دیگر پائے جاتے ہیں۔ ملکی جی ڈی پی میں دودھ اور اس سے تیار کردہ مصنوعات کا حصہ گیارہ فیصد ہے۔ اسی لئے دودھ اور اس سے تیار کردہ مصنوعات کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
پاکستان دنیا میں دودھ کی پیداوار میں چوتھے نمبر پرشمار کیا جاتا ہے۔ پاکستان سے اوپر دودھ کی پیداوار والے ممالک میں بالترتیب ہندوستان، چین اور امریکہ

Thursday, June 30, 2011

کوڑاکرکٹ، توانائی کے حصول کا ذریعہ

پاکستان گزشتہ کئی سال سے توانائی کے بحران میں مبتلا ہے، ہر شخص اسی سوچ میںگم ہے کہ توانائی کے بحران کو کیسے ختم کیا جائے۔ کہیں سولر پینل کا استعمال کیا جا رہا ہے تو کہیں بائیو گیس سے بجلی بنانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ مگر حکومت ہے جو کہیں بھی سنجیدگی اختیار کرتی نظر ہی نہیں آرہی ہے۔ بجلی کے بحران کو ختم کرنے اور لوڈ شیڈنگ پر قابو پانے کے لئے حکومت کی طرف سے نئے پروجیکٹس تو شروع کئے گئے ہیںمگر ان کی مدت بہت لمبی ہے، فوری طور پر لوڈشیڈنگ پر قابو پانے کے لئے کوئی خاص انتظامات نہیں کئے جا رہے ہیں۔
دنیا میں متعدد ممالک کوڑے کے ذریعے بجلی اور گیس حاصل کر رہے ہیں، ان میں جاپان، چین، امریکہ، برطانیہ، اسپین، ترکی، نیروبی، سویڈن، یونان اور بھارت کے علاوہ دیگر ممالک شامل ہیں۔ جاپان، بھارت اور چین نے کوڑے سے توانائی حاسل کرنے کے متعدد منصوبوں پر کام شروع کر رکھا ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک کوڑے کی اہمیت سے واقف ہیںاور اس سے توانائی حاصل کر رہے ہیں پھر ہم کیوں اس اہم چیز پر توجہ نہیں دیتے؟ ہم ملک میں روزآنہ اکھٹا ہونے والے ہزاروں ٹن کوڑے سے بجلی پیدا کر سکتے ہیں ، یوں بجلی کی کافی ضروریات بھی پوری ہو جائیں گی اور ماحول بھی صاف ستھرا ہو جائے گا۔

آئی ٹی سکیورٹی ملکی خودمختاری کےلئے ضروری

ترقی کی اس دوڑ میں انفورمیشن ٹیکنولوجی نے زندگی میں خاص اہمیت حاصل کرلی ہے۔ گزشتہ ادوار میں تمام خفیہ معلومات کو کاغذی شکل میں درازوں اور الماریوں میں رکھا جاتا تھا مگر اب دور بدل چکا ہے اوراس دور میں تمام خفیہ دستاویزات اور معلومات کو الیکٹرونک دستاویز بنا کر کمپیوٹر یا پھر ای میلز میں رکھا جاتا ہے۔ان خفیہ معلومات کو حاصل کرنے کے لئے ہیکرز اپنے ہیکنگ آئی ڈی کا استعمال کرتے ہیں، اس لنک کو کھولتے ہی تمام معلومات ہیکر کو مل جاتی ہیں اور بعض اوقات یہ ہیکر ویب سائٹس پر قابض بھی ہو جاتے ہیں۔ ایسے جرائم پیشہ افراد عام یا خاص لوگوں کی خفیہ دستاویزات کے ذریعے ان کی جائیداد اور دولت پر بھی قبضہ کرلیتے ہیں۔ انٹرنیٹ پر جان جرائم کو سائبر کرائمز کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے، ان سائبر کرائمز کے باعث روزانہ لاکھوں افراد اپنی قیمتی معلومات سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

Sunday, June 12, 2011

رابطوں کا نیا جہاں

تحریر: سید محمد عابد

سوشل میڈیا سے مراد وہ میڈیا ہے جو انٹرنیٹ ایپلیکیشنز اور موبائل ٹیکنولوجی کے ذریعے معلومات اور خبروں کا پھیلاﺅ کرتا ہے۔ گزشتہ دور میں خبروں اور دیگر معلومات کے لئے ٹی وی اور ریڈیو کا سہارا لینا پڑتا تھا مگر اب نئی ٹیکنولوجی کے ذریعے خبروں کا تبادلہ باآسانی انٹرنیٹ بلوگز، سماجی روابط کی ویب سائٹس اور موبائل ایس ایم ایس کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔

Thursday, June 9, 2011

مائیکروہائیڈل وقت کی ضرورت

  تحریر: سید محمد عابد
پاکستان بجلی کی کمی کا شکار ہے جس کی وجہ سے لوڈشیڈنگ عام ہے۔ ملک کے تقریباً تمام علاقوں میں ہی لوڈ شیڈنگ کی جا رہی ہے۔ ہر مہینے دو مہینے بعد حکومتی بیان سننے میں آتا ہے کہ رواں سال کے فلاں مہینے تک بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم کر دی جائے گی اور پھرکوئی نئی وجہ بتا دی جاتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہماری حکومت ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی ہے، چند بڑے پروجیکٹس پر کام کیا جا رہا ہے لیکن ان پروجیکٹس کو پایہ تکمیل تک پہنچنے میں ابھی بہت وقت درکار ہے اور فوری لوڈشیدنگ کو قابو کرنا بہت مشکل ہے۔ ہم کب تک لوڈشیڈنگ برداشت کریں گے؟ اس کے بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ہمیں اپنی مدد آپ کے تحت ہی کام کرنا ہو گا۔ کوئی دوسرا ہماری مدد کو آئے یا نہ آئے ہمیں خود اس قابل ہونا ہوگا کہ ہم ہر مصیبت کا ڈٹ کر مقابلہ کر سکیں۔ 

Sunday, November 28, 2010

لوڈ شیڈنگ اور اسکا حل

پاکستان اور انٹرنیٹ ویب سائیٹس

عید اور جانوروں کی خریدو فروخت

پاکستان میں فصلوں کی پیداوار میں حائل رکاوٹیں

زراعت ، بائیوٹیکنولوجی اور جدید تحقیق

بھوک کے خلاف متحد ہو جاﺅ

خوراک کے بحران سے کیسے بچا جائے؟

ڈیم ،سستی بجلی اورپانی کا ذخیرہ


واٹر فلٹریشن پلانٹس کی حالت ذار

گوگل کی کا میابیاں