Sunday, September 25, 2011
Monday, September 19, 2011
ستمبر16، اوزون کا عالمی دن
اوزون سورج کے گرد وہ تہہ ہے جو کہ سورج کی خطرناک الٹراوائلٹ بی شعاعوں کو نہ صرف زمین کی طرف آنے سے روکتی ہے بلکہ زمین پر اس کے نقصان دہ اثرات کا خاتمہ کرتی ہے۔ اوزون اوکسیجن کے تین ایٹمز کے ساتھ ایک شفاف اور نظر نہ آنے والی گیس ہے جو قدرتی طور پر فضا میں موجود ہوتی ہے۔ اوزون کی نوے فیصد مقدار زمین کی سطح سے پندرہ تا پچپن کلومیٹر اوپر بالائی فضا میں پائی جاتی ہے۔ مگر 1970ء کی دھائی میں یہ انکشاف ہوا کہ انسانوں کے بنائے ہوئے کچھ مرکبات اوزون کی اس تہہ کو تباہ کررہے ہیں۔
Friday, September 16, 2011
چقندر اور اسکے فائدے
چقندر ایک ایسی فصل ہے جس کا استعمال متعدد اشیاءکی تیاری میں کیا جاتا ہے۔ چقندر کی چار اقسام ہوتی ہیں، ایک قسم چینی نکالنے کے لئے جبکہ باقی سبزی کے طور پر استعمال ہوتی ہیں۔ چقندر کی کاشت سولہویں صدی میں یورپ سے شروع ہوئی۔ اس اہم سبزی نے دنیا میں جلد ہی ایک اہم مقام حاصل کر لیا اور یہ سب کچھ ایک نہایت قلیل عرصہ میں سائنسی علوم کی بدولت ہوا ۔ 1747ء میں ایک جرمن ماہر کیمیا دان اینڈریز سگمنٹر مارگراف نے معلوم کیا کہ چقندر کی قسم میں گنے کی جیسی چینی پائی جاتی ہے۔ اس نے اپنی تحقیق کے بعد چینی کی مقدار کو حاصل کرنے کا طریقہ اور اسکی کاشت کی مختلف اقسام کے بارے میں بتایا لیکن تب اس تحقیق کا کوئی خاص فائدہ نہ اٹھایا گیا۔اٹھارویں صدی کے آخری عشرے میں ریکارڈو چقندر سے چینی نکالنے میں کامیاب ہو گیا اور اس نے اس چینی کو بیٹ شوگر کا نام دیا جو بعد میں شوگر بیٹ کے نام سے مشہور ہوا۔ ریکارڈو کے کامیاب تجربے کے بعد جرمنی کے شہنشاہ جرمنی فریڈرک ولیم سوم کی مدد سے جرمنی کے شہر کنرن میں چقندر کی چینی کا پہلا کارخانہ قائم کیا گیا۔
Monday, September 12, 2011
ہماری زندگی پر ٹیکنولوجی کے اثرات
ٹیکنولوجی دنیا میں آئی اور اس نے انسان کو اپنا عادی بنا لیا، اب انسان ٹیکنولوجی کا عادی ہو چکا ہے اور اس کے بنا نہیں رہ سکتا۔ انسان ہمیشہ سے اپنے لئے آسانی ڈھونڈتا رہا ہے اور اس مقصد کے لئے طرح طرح کی نئی ٹیکنولوجی تیار کر لی۔ہماری زندگی میں ایجادات کا سلسلہ جاری ہے روزانہ بیسیوں چیزیں ایسی دیکھنے میں آتی ہیں جنہیں دیکھ کر انسان دنگ رہ جاتا ہے۔ زندگی کے مختلف شعبہ جات مثلاً زراعت، توانائی، تجارت، سفر اور رابطوں کے لئے ٹیکنولوجی نہایت اہم کردار ادا کر رہی ہے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہتر زرعی پیداوار کے لئے زرعی مشینری، توانائی کے حصول کےلئے جدید نیوکلر، شمسی اور ہوا کی توانائی کا استعمال شروع کر دیا گیا ہے۔انسان نے زمین سے اپنے سفر کا سلسلہ گھوڑے اور خچر سے شروع کیا اور اب جدید دور میں گاڑی، ریل گاڑی اور ہوائی جہاز پر سفر کر رہا ہے۔جدید دور کے انٹرنیٹ نے برقی پیغامات یعنی ای میل اور چیٹ کے ذریعے پیغام رسانی کو آسان بنا دیا ہے اور اس طرح انسانوں کے درمیان دوریاں ختم ہو گئی ہیں۔ انسان دنیا میں کہیں بھی بیٹھا ہو، اپنے کسی بھی عزیز سے ای میل اور چیٹنگ اور وائس چیٹ کے ذریعے بات چیت کر سکتا ہے۔
Friday, September 2, 2011
جنیاتی علوم اور انسانی زندگی
خدا نے ہر چیز کا ایک نظام بنایا ہے، سب چیزیں اسی نظام کے تحت چل رہی ہیں۔ سائنسدان گزشتہ کئی سالوں سے اس بات کی تحقیق کر رہے ہیں کہ انسان آخر کیسے وجود میں آیا اور یہ کیسے جی رہا ہے؟ ڈی این اے کی دریافت اور تحقیق نے یہ ثابت کر دیا کہ زندہ اشیا ایسی مکمل اور پیچیدہ ترتیب و ترکیب کا مرکب ہیں کہ یہ حادثاتی طور پر کسی اتفاق کے تحت وجود میں نہیں آسکتیں جب تک یہ کسی بڑے ماہر اور قادر مطلق بنانے والے کی کارگزاری نہ کہی جائے۔ اگر کسی مقام پر اینٹ، پتھر، گارا، مٹی، قالین، ایرکنڈیشنر، ٹی وی اور ریفریجریٹر اور دیگر سامان موجود ہو اور پھر اچانک ایک حادثہ یا اتفاقی واقعہ ایسا ہوجائے کہ یہ سب مل کر بادشاہ سلامت کا محل بن کر ابھر آئے، یہ جادو کی کہانی تو ہوسکتی ہے ایک سائنسی حقیقت کبھی نہیں ہوسکتی۔ ڈی این اے میں چھپے ہوئے اربوں کیمیائی حروف کوجان کر انسان کو اندازہ ہوا کہ ہر انسان کی الگ معلومات ہیں اور وہ جنوم میں ان کوڈ ہوتی ہیں جس کو جان کر ہرانسان کی پیدائش سے لے کر وفات تک کی تمام معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔ جنومز کے ذریعے ہر انسان کیالگ معلومات جیسے آباو اجداد کہاں سے آئے، اس کی اپنی شخصیت کیسی ہے، اس کے طبعی خدوخال، اس کی رنگت، اس کی موروثیت، نسل اور ذہنی استعداد وغیرہ کی مکمل تفصیلات موجود ہوتی ہیں۔ کیا بیماریاں ہیں یا کون سی بیماریاں ہونے کا امکان ہے۔
Subscribe to:
Posts (Atom)