Sunday, September 25, 2011

پاکستان صنوبر کے جنگلات کا دوسرا بڑا ذخیرہ

درخت اور سبزہ خدا کا دیا ہو وہ تحفہ ہیں جسے دیکھ کر انسان کی طبیعت خوشگوار اور دل کو راحت و سکون محسوس ہوتا ہے۔ درخت و سبزہ خوبصورتی و شادابی کا وہ منظر ہیں جس کا کوئی نعم البدل نہیں ملتا۔ دنیا میں جنگلات کی شرح 25، 30، 35 اور40 فیصد تک ہے جبکہ پاکستان میں یہ رقبہ چار اعشاریہ دو دو چار ملین ہیکٹر پر مشتمل ہے جو کل رقبہ کاصرف 5 فیصد ہے اور اسے بڑھانے کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے۔ پاکستان کے پہاڑی سلسلوں میںلگے الپائن، سب الپائن، جونیپر، سفیدہ اور دیودار کے اونچے اونچے درختوں خوبصورتی و حسن کا ایک الگ منظر پیش کرتے ہیں۔ پاکستان میں 5 ہزار 7 سو اقسام کے پودے، درخت اور جنگلات پائے جاتے ہیں۔ صرف چترال، کشمیر اور شمالی بلوچستان میں ہی 203 اقسام کے پورے اور درخت پائے جاتے ہیں جو ملک بھر کے کل درختوں کا چار فیصد ہیں۔ نسبتاً کم بلند ہمالیائی سلسلوں میں بارش زیادہ ہوتی ہے اور اسی سبب یہاں دیودار، پائن، گل لالہ اور شاہ بلوط یا بید مجنوں کے گھنے جنگلات کی بھرمار ہے۔


Monday, September 19, 2011

ستمبر16، اوزون کا عالمی دن

اوزون سورج کے گرد وہ تہہ ہے جو کہ سورج کی خطرناک الٹراوائلٹ بی شعاعوں کو نہ صرف زمین کی طرف آنے سے روکتی ہے بلکہ زمین پر اس کے نقصان دہ اثرات کا خاتمہ کرتی ہے۔ اوزون اوکسیجن کے تین ایٹمز کے ساتھ ایک شفاف اور نظر نہ آنے والی گیس ہے جو قدرتی طور پر فضا میں موجود ہوتی ہے۔ اوزون کی نوے فیصد مقدار زمین کی سطح سے پندرہ تا پچپن کلومیٹر اوپر بالائی فضا میں پائی جاتی ہے۔ مگر 1970ء کی دھائی میں یہ انکشاف ہوا کہ انسانوں کے بنائے ہوئے کچھ مرکبات اوزون کی اس تہہ کو تباہ کررہے ہیں۔

Friday, September 16, 2011

چقندر اور اسکے فائدے


Monday, September 12, 2011

ہماری زندگی پر ٹیکنولوجی کے اثرات

ٹیکنولوجی دنیا میں آئی اور اس نے انسان کو اپنا عادی بنا لیا، اب انسان ٹیکنولوجی کا عادی ہو چکا ہے اور اس کے بنا نہیں رہ سکتا۔ انسان ہمیشہ سے اپنے لئے آسانی ڈھونڈتا رہا ہے اور اس مقصد کے لئے طرح طرح کی نئی ٹیکنولوجی تیار کر لی۔ہماری زندگی میں ایجادات کا سلسلہ جاری ہے روزانہ بیسیوں چیزیں ایسی دیکھنے میں آتی ہیں جنہیں دیکھ کر انسان دنگ رہ جاتا ہے۔ زندگی کے مختلف شعبہ جات مثلاً زراعت، توانائی، تجارت، سفر اور رابطوں کے لئے ٹیکنولوجی نہایت اہم کردار ادا کر رہی ہے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہتر زرعی پیداوار کے لئے زرعی مشینری، توانائی کے حصول کےلئے جدید نیوکلر، شمسی اور ہوا کی توانائی کا استعمال شروع کر دیا گیا ہے۔انسان نے زمین سے اپنے سفر کا سلسلہ گھوڑے اور خچر سے شروع کیا اور اب جدید دور میں گاڑی، ریل گاڑی اور ہوائی جہاز پر سفر کر رہا ہے۔جدید دور کے انٹرنیٹ نے برقی پیغامات یعنی ای میل اور چیٹ کے ذریعے پیغام رسانی کو آسان بنا دیا ہے اور اس طرح انسانوں کے درمیان دوریاں ختم ہو گئی ہیں۔ انسان دنیا میں کہیں بھی بیٹھا ہو، اپنے کسی بھی عزیز سے ای میل اور چیٹنگ اور وائس چیٹ کے ذریعے بات چیت کر سکتا ہے۔

Friday, September 2, 2011

جنیاتی علوم اور انسانی زندگی

خدا نے ہر چیز کا ایک نظام بنایا ہے، سب چیزیں اسی نظام کے تحت چل رہی ہیں۔ سائنسدان گزشتہ کئی سالوں سے اس بات کی تحقیق کر رہے ہیں کہ انسان آخر کیسے وجود میں آیا اور یہ کیسے جی رہا ہے؟ ڈی این اے کی دریافت اور تحقیق نے یہ ثابت کر دیا کہ زندہ اشیا ایسی مکمل اور پیچیدہ ترتیب و ترکیب کا مرکب ہیں کہ یہ حادثاتی طور پر کسی اتفاق کے تحت وجود میں نہیں آسکتیں جب تک یہ کسی بڑے ماہر اور قادر مطلق بنانے والے کی کارگزاری نہ کہی جائے۔ اگر کسی مقام پر اینٹ، پتھر، گارا، مٹی، قالین، ایرکنڈیشنر، ٹی وی اور ریفریجریٹر اور دیگر سامان موجود ہو اور پھر اچانک ایک حادثہ یا اتفاقی واقعہ ایسا ہوجائے کہ یہ سب مل کر بادشاہ سلامت کا محل بن کر ابھر آئے، یہ جادو کی کہانی تو ہوسکتی ہے ایک سائنسی حقیقت کبھی نہیں ہوسکتی۔ ڈی این اے میں چھپے ہوئے اربوں کیمیائی حروف کوجان کر انسان کو اندازہ ہوا کہ ہر انسان کی الگ معلومات ہیں اور وہ جنوم میں ان کوڈ ہوتی ہیں جس کو جان کر ہرانسان کی پیدائش سے لے کر وفات تک کی تمام معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔ جنومز کے ذریعے ہر انسان کیالگ معلومات جیسے آباو اجداد کہاں سے آئے، اس کی اپنی شخصیت کیسی ہے، اس کے طبعی خدوخال، اس کی رنگت، اس کی موروثیت، نسل اور ذہنی استعداد وغیرہ کی مکمل تفصیلات موجود ہوتی ہیں۔ کیا بیماریاں ہیں یا کون سی بیماریاں ہونے کا امکان ہے۔