Sunday, October 23, 2011

بچوں میں سائنس و ٹیکنولوجی کا شعور


سائنس و ٹیکنولوجی کے میدان میں ترقی ہر ملک کے لئے ضروری ہے اور اس کے لئے ہماری نوجوان نسلخصوصاً بچوں میں سائنس و ٹیکنولوجی کا شعور بیدار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ بچوں کو جو کچھ شروع سے سمجھایا جاتا ہے اور جو کچھ وہ دیکھتے ہیں وہ بھی ویسا ہی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ہر انسان کا مستقبل میں بچپن اور جوانی کے اثرات اور تجربات سے گہرا تعلق رکھتا ہے۔ اگر بچوں کو سائنس و ٹیکنولوجی کے ماحول میں رکھا جائے جہاں وہ روزانہ سائنسی تجربات سے ہمکنار ہوتے ہوں تو وہ ان چیزوں میں دلچسپی لیں گے اور اس طرح بچوں میں سائنس کا شعور پیدا ہوگا۔ ان بچوں کی تربیت ایسے ماحول میں کی جائے جہاں ان کا جوش وجذبہ سائنس وٹیکنولوجی سے وابسطہ ہو تو ملک میں تقریباً ہر دو سے چار دن میں ایک نئی ایجاد سامنے آئے گی۔
سائنس کو اردو میں علم کہتے ہیں اور علم کا مطلب ہوتا ہے جاننا یا آگہی حاصل کرنا، اپنے اردگرد کے ماحول کا مشاہدہ کرنا، مختلف قدرتی چیزوں کے بارے میں سوچنا اور پھر اس پر تجربہ کرنے والے کو سائنسدان کہتے ہیں یعنی سائنسدان وہ ہوتا ہے جو مشاہدہ کرتا ہے اور سوچ کر کوئی نتیجہ اخذ کرتا ہے۔ یہ سب کچھ بچے تو بڑی آسانی سے کر سکتے ہیں اور آج کل کے بچے تو دیکھتے ہی دیکھتے بڑی بڑی چیزیں بنا لیتے ہیں۔ بچوں میں سائنس و ٹیکنولوجی کا شعور بیدار کر کے ہم متعدد ایجادات کو حاصل کر سکتے ہیں۔

Saturday, October 15, 2011

ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی ایک عہد ساز سائنسدان

وطن عزیز پاکستان کو خدا تعالیٰ نے بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے ان میں سے ایک نعمت ملک کی عوام میں موجود بے پناہ ذہانت اور ہنر ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر، ڈاکٹر ثمر مبارک مند، حکیم محمد سعید شہید اور دیگر کا تعلق اسی ارض پاک سے ہے جن کی صلاحیتوں اور قابلیتوں کا ایک زمانہ معترف ہے۔ ان تمام افراد کے بارے میں جان کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں ذہانت، صلاحیت اور قابلیت کی کمی نہیں۔ اس وقت میں جس عظیم اور قابل ہستی کا تذکرہ کرنے لگا ہوں ان کا نام مرحوم ڈاکٹر سلیم الزمان صدیقی ہے اور یہ وہ قابل انسان تھے جنہوں نے نہ صرف پاکستان و ہندوستان بلکہ دنیا بھر میں اپنے سائنسی تجربات کا لوہا منوایا۔ پاکستان ان ہی کی بدولت سائنسی اور صنعتی تحقیق کے راستے پر گامزن ہوا۔

Monday, October 10, 2011

کاربن کریڈٹ ماحول کا تحفظ بھی کاروبار بھی


کاربن کریڈٹ سے مراد ایک معاہدہ ہے جس کی رو سے ایک ملک دوسرے ملک کو ایک ٹن کاربن ڈائی آوکسائیڈ تک خارج کرنے کی اجازت دیتے ہیں اور اس ہدف سے کم کاربن ڈائی اوکسائیڈ کے اخراج پر کریڈٹ دیا جاتا ہے۔ یہ کریڈٹ کسی بھی ملک کی انتظامیہ ہی نہیں بلکہ عام کسان اور صنعت کار بھی کم کاربن ڈائی اوکسائیڈ یا گرین ہاﺅس گیسز کے اخراج کے ذریعے حاصل کر سکتے ہیں۔ اس کاربن کریڈٹ کو دینے کا مقصد دنیا بھر میں کاربن ڈائی اوکسائیڈ اور ماحول پرمنفی اثرات مرتب کرنے والی دیگر گیسز پر قابو پانا ہے۔ کاربن کریڈٹ ایک ایسی چیز ہے جس میں آلودگی کو خریدا اور بیچا جاتا ہے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں کاربن ڈائی آوکسائیڈ کے اخراج میں سب سے زیادہ حصہ امریکہ، چین، بھارت، روس، جاپان، بھارت، جرمنی، برطانیہ، کینیڈا، جنوبی کوریا اور اٹلی کاہے۔وطن عزیز پاکستان خدا کے فضل و کرم سے ان ممالک میں شامل کیا جاتا ہے جو کاربن ڈائی اوکسائیڈ یا گرین ہاﺅس گیسز کا کم اخراج کرتے ہیں۔پاکستان کے مقابلے میں بھارت گیسزکا اخراج زیادہ کرتا ہے۔ پاکستانی صنعتکار اپنی صنعتوں کے عالمی سطح سے کم کاربن اخراج کے ذریعے ترقی یافتہ ممالک سے کاربن کریڈٹس حاصل کر سکتے ہیں۔

Tuesday, October 4, 2011

کسان، زراعت اور مسائل

زراعت پاکستان کے لئے ایک جڑ کی حیثیت رکھتی ہے، ملک کی 60 فیصد سے زائد آبادی زراعت کے شعبے سے وابستہ ہے۔ ملکی زرمبادلہ میں زراعت کا حصہ بائیس فیصد ہے۔ پاکستان میں پیدا ہونے والی کپاس، گندم، گنا اور چاول کی فصل بیرونی منڈیوںمیں خاص اہمیت رکھتی ہے اور ملک ان فصلوں کی بدولت قیمتی زرمبادلہ حاصل کرتا ہے۔ اس کے باوجود ملکی زرعی شعبے کی ترقی کی رفتار نہایت سست ہے۔ ہمارے مقابلے میں دنیا کے دیگر ملک زیادہ پیداوار دے رہے ہیں۔ اگر زرعی ترقی میں حائل رکاوٹوں پر غور کیا جائے تو کئی وجوہات سامنے آتی ہیں۔ہمارے کسان مہنگائی کے بوجھ تلے پھنسے جارہے ہیں، کھاد نہ صرف مہنگی ہو رہی ہے بلکہ کاشت کے دنوں میں ناپید ہو جاتی ہے، دیگر زرعی لوازمات بھی ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قیمتوں میں اضافے کے باعث مہنگے ہو رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں یوریا کھاد کی اوسط قیمت 1616 جبکہ ڈی اے پی کی اوسط قیمت 4046 روپے فی50 کلوگرام سے بھی زیادہ ہو گئی۔ ہماری حکومت نے زرعی ٹیکس اور دیگر کئی صورتوں میں زرعی اشیاءکو شدید مہنگا کر دیا ہے۔ غریب