Friday, September 16, 2011

چقندر اور اسکے فائدے


پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ میںءسے 13-1912ء لے کر 1928ء تک چقندر کی کاشت پر ڈاکٹر ڈبلیو آر براون سابقہ صوبہ سرحد کے ایگریکلچر آفیسر کی زیر نگرانی تجربات کئے اور ثابت کیا کہ وادی پشاور چقندر کی کاشت کے لئے موزوں ہے۔ دسمبر 1931ء میں ڈاکٹر براون آسٹریلیا چلے گئے اور پھر چقندر پر پاکستانی ماہر ایس ایم آئی شاہ تین سال تک تجربات کرتے رہے لیکن اس کے کوئی خاص نتائج برآمد نہیں ہوئے۔ 1952ء میں زرعی ماہرین نے چقندر پر مزید توجہ دی اور اندازہ کیا کہ چقندرسے حاصل شدہ چینی گنے کی چینی کی نسبت زیادہ فائدے مند ہے۔ چقندر میں گنے کی نسبت30 فیصد زیادہ چینی پائی جاتی ہے علاوہ ازیں چقندر 6 سے 8 آبپاشی کے ساتھ 7 ماہ میں پک جاتی ہے جبکہ گنا 16 پانی کے ساتھ ایک سال لیتا ہے گنے کی کٹائی تقریباً نومبر میں شروع ہو کر اپریل تک جاتی ہے جبکہ چقندر مئی میں تیار ہو جاتی ہے اورجولائی کے وسط تک کارخانے کو مہیا کی جاتی ہے یہ تجربات مردان میں کئے گئے اور ان ہی تجربات کی روشنی میں زمینداروں نے چقندر اگانا شروع کی۔ صوبہ خیبرپختونخوا میں چقندر کی کاشت مردان، پشاور اور چارسدہ میں 30 ہزار ایکڑ سے تجاوز کرچکی ہے ملوں میں چقندر کی چینی کا پرتہ 8 سے 10 فیصد ہے۔
59-1958ء میں چارسدہ شوگر مل نے چینی بنانے کا پہلا کارخانہ لگایا اور اب ملک میں دو شوگر ملیں چقندر سے چینی بنا رہی ہیں۔ ایوب زرعی تحقیقاتی ادارہکا کہنا ہے کہ چقندر سے چینی کا حصول ملز مالکان اور کسان دونوں کے لئے فائدہ مند ہے اور اس کی بدولت چینی کی پیداوار بھی زیادہ حاصل کی جا سکتی ہے کیونکہ چقندر کی فصل گنے کی نسبت جلد تیار ہو جاتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ایک چوتھائی چینی صرف چقندر سے بنائی جاتی ہے۔ ایوب زرعی تحقیقاتی ادارہ فیصل آباد کے زرعی ماہرین نے کاشتکاروں سے کہا ہے کہ وہ چقندر کی فی ایکڑ بہترین پیداوار حاصل کرنے کیلئے چقندر کی کاشت کا عمل 20 ستمبر سے شروع کر کے 31 اکتوبر تک مکمل کر لیں وگرنہ آمدن میں 50 فیصد چینی کے نسبتاً 30 فیصد کمی آتی ہے۔ پاکستان میں کاشت کاروں کو دو اقسام کیوی ٹرما اورکیوی میرا کاشت کیلئے دی جاتی ہیں یہ ٹریلائیڈہائرڈ ہیں ان اقسام کی پیداواری صلاحیت 75 ٹن فی ہیکڑ اور چینی کا برتہ 17 فیصد تک ہے۔ ماہرین کے مطابق چقندر کی فی ہیکٹرزمین میں100 کلو گرام فاسفورس اور 90 سے 120 گرام نائٹروجن کی ضرورت ہوتی ہے۔
پاکستان میں چقندر کی کاشت موسم خزاں جبکہ برداشت مئی اور جون میں کی جاتی ہے۔ فصل کی اچھی اور مناسب بڑھوتری کیلئے ضروری ہے کہ دن کا درجہ حرارت 25 سے 30 درجہ اور رات کا درجہ حرارت 17 سے 20 سینٹی گریڈ ہو۔ چقندر کی اچھی پیداوار حاصل کرنے کیلئے زمین زرخیز ہونی چاہئے وادی پشاور کی بیشتر زمین اچھی اقسام کی پیداوار ان کیلئے موزوں ہے شوریت اور سیم زدہ زمین چقندر کی کاشت کیلئے موزوں نہیں ہے تجربات سے ثابت ہوا ہے کہ درمیانی زرخیز زمین پر اس کی پیداوار اچھی ہوئی ہے۔ پہلے صرف پشاور، چارسدہ، صوابی اور مردان میں چقندر کی کاشت کی جاتی تھی مگر اب ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی اس کی کامیاب کاشت ہو رہی ہے۔
چقندر بھارت، پاکستان، شمالی افریقہ اور یورپ میں کثرت سے سبزی کے طور پر کاشت کیا جاتا ہے۔ اسے اگر اس کے اطارف میں لگایا جائے تو آنکھوں کی سوزش اور جلن میں مفید ہے۔ چقندر کے پانی کو روغن زیتون میں ملا کر جلے ہوئے مقام پر لگانا مفید ہے۔ سفید چقندر کا پانی جگر کی بیماریوں میں اچھے اثرات رکھتا ہے۔ چقندر کے قتلوں کو پانی میں ابال کر اس پانی کی ایک پیالی صبح ناشتہ سے ایک گھنٹہ پہلے پینے سے پرانی قبض جاتی رہتی ہے اور بواسیر کی شدت میں کمی آ جاتی ہے۔ جلد کے زخموں، بفہ اور خشک خارش میں چقندر کے قتلوں کو پانی اور سرکہ میں ابال کر لگانا مفید ہے۔ اس مرکب کو دور چار مرتبہ لگانے سے سر کی خشکی غائب ہو جاتی ہے۔ چقندر کے اجزاءدست آور ہیں جبکہ اس کا پانی دستوں کو بند کرتا ہے۔

تحریر: سید محمد عابد

http://smabid.technologytimes.pk/?p=548

http://www.technologytimes.pk/2011/09/12/%DA%86%D9%82%D9%86%D8%AF%D8%B1-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%A7%D8%B3%DA%A9%DB%92-%D9%81%D8%A7%D8%A6%D8%AF%DB%92/ 

No comments:

Post a Comment