
59-1958ء میں چارسدہ شوگر مل نے چینی بنانے کا پہلا کارخانہ لگایا اور اب ملک میں دو شوگر ملیں چقندر سے چینی بنا رہی ہیں۔ ایوب زرعی تحقیقاتی ادارہکا کہنا ہے کہ چقندر سے چینی کا حصول ملز مالکان اور کسان دونوں کے لئے فائدہ مند ہے اور اس کی بدولت چینی کی پیداوار بھی زیادہ حاصل کی جا سکتی ہے کیونکہ چقندر کی فصل گنے کی نسبت جلد تیار ہو جاتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ایک چوتھائی چینی صرف چقندر سے بنائی جاتی ہے۔ ایوب زرعی تحقیقاتی ادارہ فیصل آباد کے زرعی ماہرین نے کاشتکاروں سے کہا ہے کہ وہ چقندر کی فی ایکڑ بہترین پیداوار حاصل کرنے کیلئے چقندر کی کاشت کا عمل 20 ستمبر سے شروع کر کے 31 اکتوبر تک مکمل کر لیں وگرنہ آمدن میں 50 فیصد چینی کے نسبتاً 30 فیصد کمی آتی ہے۔ پاکستان میں کاشت کاروں کو دو اقسام کیوی ٹرما اورکیوی میرا کاشت کیلئے دی جاتی ہیں یہ ٹریلائیڈہائرڈ ہیں ان اقسام کی پیداواری صلاحیت 75 ٹن فی ہیکڑ اور چینی کا برتہ 17 فیصد تک ہے۔ ماہرین کے مطابق چقندر کی فی ہیکٹرزمین میں100 کلو گرام فاسفورس اور 90 سے 120 گرام نائٹروجن کی ضرورت ہوتی ہے۔
پاکستان میں چقندر کی کاشت موسم خزاں جبکہ برداشت مئی اور جون میں کی جاتی ہے۔ فصل کی اچھی اور مناسب بڑھوتری کیلئے ضروری ہے کہ دن کا درجہ حرارت 25 سے 30 درجہ اور رات کا درجہ حرارت 17 سے 20 سینٹی گریڈ ہو۔ چقندر کی اچھی پیداوار حاصل کرنے کیلئے زمین زرخیز ہونی چاہئے وادی پشاور کی بیشتر زمین اچھی اقسام کی پیداوار ان کیلئے موزوں ہے شوریت اور سیم زدہ زمین چقندر کی کاشت کیلئے موزوں نہیں ہے تجربات سے ثابت ہوا ہے کہ درمیانی زرخیز زمین پر اس کی پیداوار اچھی ہوئی ہے۔ پہلے صرف پشاور، چارسدہ، صوابی اور مردان میں چقندر کی کاشت کی جاتی تھی مگر اب ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی اس کی کامیاب کاشت ہو رہی ہے۔
چقندر بھارت، پاکستان، شمالی افریقہ اور یورپ میں کثرت سے سبزی کے طور پر کاشت کیا جاتا ہے۔ اسے اگر اس کے اطارف میں لگایا جائے تو آنکھوں کی سوزش اور جلن میں مفید ہے۔ چقندر کے پانی کو روغن زیتون میں ملا کر جلے ہوئے مقام پر لگانا مفید ہے۔ سفید چقندر کا پانی جگر کی بیماریوں میں اچھے اثرات رکھتا ہے۔ چقندر کے قتلوں کو پانی میں ابال کر اس پانی کی ایک پیالی صبح ناشتہ سے ایک گھنٹہ پہلے پینے سے پرانی قبض جاتی رہتی ہے اور بواسیر کی شدت میں کمی آ جاتی ہے۔ جلد کے زخموں، بفہ اور خشک خارش میں چقندر کے قتلوں کو پانی اور سرکہ میں ابال کر لگانا مفید ہے۔ اس مرکب کو دور چار مرتبہ لگانے سے سر کی خشکی غائب ہو جاتی ہے۔ چقندر کے اجزاءدست آور ہیں جبکہ اس کا پانی دستوں کو بند کرتا ہے۔
تحریر: سید محمد عابد
http://www.technologytimes.pk/2011/09/12/%DA%86%D9%82%D9%86%D8%AF%D8%B1-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%A7%D8%B3%DA%A9%DB%92-%D9%81%D8%A7%D8%A6%D8%AF%DB%92/
No comments:
Post a Comment