Sunday, November 28, 2010

عید اور جانوروں کی خریدو فروخت

دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح پاکستان میں بھی عیدوں اور دوسرے مزہبی تہواروں کو بڑے احترام سے منایا جاتا ہے، عیدالفطر کے قریب آتے ہی لوگ کپڑے اور دوسری اشیاءکی خریداری میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ رمضان میں لوگ نمازو تراویح کے ساتھ ساتھ عید کی خریداری بھی شروع کر دیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ عیدوں پر کھانے پینے اور کپڑوں کے علاوہ دوسری اشیاءکی قیمتوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ عیدالفطر کو رمضان کے اختتام پر منایا جاتا ہے، لوگ رمضان میں روزے رکھتے اور عبادت کرتے ہیں۔ رمضان کے اس مہینے میں روزہ ہمیں غریبوں کی بھوک کا احساس دلاتا ہے۔ ہمیں یہ محسوس ہو جاتا ہے کہ اگر ایک وقت کا کھانا نہ ملے تو کیسا لگتا ہے۔ رمضان ۹۲ سے ۰۳ دنوں کا ہوتا ہے اور عیدالفطر اسلامی مہینہ شوال کے چاند کے مطابق منائی جاتی ہے۔
پاکستان میں بھی ساری دنیا کے مسلمانوں کی طرح عیدالالضحیٰ جس کو قربانی کی عید بھی کہتے ہیں بڑے جوش و خروش سے منائی جاتی ہے، لوگ جانوروں کی قربانی کرتے ہیں اور گوشت تقسیم کرتے ہیں۔ عیدالاضحی کو اسلامی مہینے ذوالحج کی دس تاریخ کو منایا جاتا ہے جب حضرت ابراہیم کو خواب میں خدا کی طرف سے حکم آیا کہ وہ اپنے بیٹے حضرت اسماعیل کی خدا کی راہ میں قربانی دے دیں۔ اس خواب کے بعد حضرت ابراہیم منہا کی طرف چل دیئے اور جب قربانی دینے لگے تو حضرت اسماعیل کی جگہ دمبے کی قربانی ہو گئی۔ اس واقع کے بعد پوری دنیا کے مسلمان ہر سال اسلامی مہینے ذوالحج میں جانوروں کی قربانی کرتے ہیں اور حجاج خدا کے گھر کا حج کرتے ہیں۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی عیدالاضحی کا وہی جوش ہے جو ہوا کرتا ہے، جانوروں کی منڈیاں لگ چکی ہیں اور خریدار بھی جانور خریدنے کی غرض سے بکرا منڈی آتے ہیں۔
پاکستان میںبکروں کی فروخت عام منڈیوں کے علاوہ انٹرنیٹ کے ذریعے بھی کی جا رہی ہے، انٹرنیٹ ویب سائٹس پر جانوروں کی فروخت کی مشہوری اور لوگوں کا اعتماد بحال کرنے کے لئے مشہور مفتی حضرات کے فتوے جاری کر دئے گئے ہیں۔ پاکستان میں عیدالاضحیٰ کے موقع پر قربانی کے جانوروں کی خریداری شہریوں کے لئے ہمیشہ ہی ایک مسئلہ رہی ہے لیکن سائنس اور ٹیکنولوجی کی ترقی اور انٹرنیٹ نے پڑھے لکھے لوگوں کے لئے یہ مسئلہ کسی حد تک حل کردیا ہے اور اب آپ بکرا منڈی یا بڑے شہروں میں قربانی کے جانوروں کے لئے لگائی گئی عارضی منڈیوں میں جا کرگھنٹوں اپنا وقت ضائع کرنے کے بجائے صرف چند منٹوں میں انٹرنیٹ پر مطلوبہ اور پسندیدہ جانور خرید سکتے ہیں۔
ای بکرا ڈاٹ کام نامی کمپنی نے اسلام آباد سے قربانی کے جانور آن لائن فروخت کرنے کی ابتداء۶۰۰۲ءمیں کی تھی اور اب اس کاروبار میں مزید کئی کمپنیاں شامل ہوچکی ہیں اور ان کے کاروبار کو کافی فروغ حاصل ہو اہے۔ جانوروں کی فروخت کے علاوہ کساب کا انتظام بھی انٹرنیٹ کے ذریعے دستباب ہے، آپ با آسانی انٹرنیٹ پر جانوروں کی خریداری اور کساب کا انتظام کر سکتے ہیں۔
ہر سال بکرا عید کے قریب آتے ہی جانوروں کے حسن اور ان کی صحت کے حوالے سے مقابلہ کیا جاتا ہے، مقابلے میں جانوروں کا وزن کیا جاتا ہے اور زیادہ وزن والے جانور کے مالک کو انعام دیا جاتا ہے۔ جانوروں کے اس مقابلے کو پاکستان کے شہر فیصل آباد میں منعقد کیا جاتا ہے۔ رواں سال بھی قربانی کے ان جانوروں کے درمیان مقابلے ہوئے۔ بیلوں کے مقابلے میں چالیس من وزنی شیرا نامی بیل جبکہ بکروں کے مقابلے میں سات من وزنی بہادر نامی بکرے نے کامیابی حاصل کی۔ بیلوں کے مقابلے میں کامیابی پانے والے بیل کے مالک کا نام عطا گجر بتایا گیا ہے جبکہ اس کے بیلکا وزن چالیس من سے زائد تھا۔
اس مقابلے میں بکرے بھی بیلوں سے کچھ کم نہیں ہیں ان بکروں کا وزن سن کر عام آدمی حیران رہ جاتا ہے، رواں سال مقابلے میں جیت حاصل کرنے والے بکرے کا نام بہادر تھا، اس کا تعلق رحیم یار خان سے تھا جبکہ اس کا وزن 280 کلو تھا۔ جیتنے والے بیل کے مالک کو دو لاکھ جبکہ بکرے کے مالک کو ایک لاکھ دیا گیا۔ فیصل آباد کے فیکٹری ایریا میں ہونے والے اس مقابلے میں پاکستان بھر سے صحت مند جانوروں کو لایا گیا، ان جونوروں کی صحت اتنی اچھی ہوتی ہے اور وہ اتنے تگڑے ہوتے ہیں کہ کوئی بھی خریدار اس جانور کو خریدنے کے لئے فوراَ راضی ہو جائے۔ ان منڈیوں میں کچھ لمبے قد اور خوبصورت جانوروں پر ٹکٹ بھی رکھا جاتا ہے۔ اس باربھی کچھ بیوپاریوں نے جانوروں کو ٹینٹ میں رکھ کر ان پر ٹکٹ لگا رکھا ہے، اب کوئی بھی خریدار اگر جانور کو دیکھنے کے لئے آئے گا تو اس کو ٹکٹ کے پیسے لازمی دینے ہوں گے۔اس طرح جانور کی فروخت ہو یا نہ ہو بیوپاری کو ٹکٹ کے پیسے ملتے رہیں گے۔
اس سال پاکستان میں آنے والے سیلاب نے ہر طرف تباہی مچائی ہے ،تباہی کا اثر کھانے پینے کی اشیاءسے لے کر قربانی کے ان جانوروں تک سب ہی میں نظر آرہا ہے ۔ منڈیوں میں تو جانوروں کا رش ہے مگر ان کی قیمتیں سیلاب کی وجہ سے بہت زیادہ ہیں۔بیوپاریوں کا کہنا ہے کہ اس سال سیلاب،جانوروں کا مہنگا چارہ اور ٹرانسپورٹ کرایوں میں اضافے کے باعث جانوروں کی قیمتیں زیادہ ہیں۔ رواںسال سیلاب کے دوران جانوروں کی کثیر تعداد پانی میںبہہ گئی جبکہ متعدد جانور چارہ نہ ملنے کے باعث ہلاک ہوئے۔سیلاب کا نقصان غریب کسانوں کو تو ہوا ہی تھا مگر اب قربانی کرنے والے افراد بھی جانوروں کی قیمت میں مہنگائی کے باعث سیلاب کی تباہی کا اثر برداشت کر رہے ہیں ۔
ایک بیوپاری جوکہ اسلام آباد کی بکرا منڈی میں موجود ہے اس کا کہنا ہے کہ میرے پاس دو بکرے ہیں اور ان کی قیمت تین لاکھ ہے، بکروں کی اتنی قیمت زیادہ ہونے کے حوالے سے سوال پوچھنے پر بیوپاری کا کہنا تھا کہ سیلاب اور مہنگائی کے باعث جانوروں کی قیمت زیادہ ہے۔اس کے برعکس قربانی کے جانوروں کی خریداری کرنے والے افراد کا کہنا ہے کہ جانوروںکی قیمت میں اضافے کے باعث قربانی کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ پہلے اگر جانور مہنگا ہوتا تھا تو جانور میں حصہ ڈال کر گزارا کر لیا جاتا تھا ، مگر اب حالات اس سے بالکل مختلف ہیں۔ گائیں اور بیل بھی اتنے مہنگے ہیں کہ خریداری کرتے ہوئے سوچنا پڑتا ہے، گائیں اور بیلوں کی قیمت خرید لاکھوں میں ہے۔ ایک اور بکرا منڈی کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ جانوروں کی کمی کے باعث قربانی کے جانوروں کو دبئی سے منگوایا گیا ہے اس لئے بھی جانور مہنگے ہیں۔
عیدالاضحی کے اس موقع پرراول پنڈی، اسلام آباد کے علاوہ چاروں صوبائی دارالحکومتوں لاہور، کراچی، پشاور اور کوئٹہ میں کئی مقامات پر عارضی منڈیاں قائم کی گئی ہیں مگر ان میں کوئی خاص رش نظر نہیں آتا ہے اس کی اصل وجہ جانوروں کی قیمتوں میں بے تہاشا اضافہ ہے۔
اگر یہی مسائل رہے تو پاکستان کے شہریوں کا عیدوں پر قربانی کرنا سخت مشکل ہو جائے گا۔ روز بروز ہر چیز کی قیمت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اس اضافہ کا ہر فرد پر اثر پڑھ رہا ہے۔ جانوروں کا مہنگا ہونا صرف عید تک محداد نہیں ہے، عید کے بعد مہنگائی کا اثر گوشت پر نظر آئے گا جو گوشت دو سو چالیس یا ڈھائی سو روپے کلو ابھی مل رہا ہے وہ کچھ ہی عرصہ میں تین سو روپے کلو تک پہنچ جائے گا۔ ہماری حکومت اگر یوں ہی سوتی رہی اور کوئی موئثر انتظام نا کیا تو ملک میں لوگوں کا زندہ رہنا مشکل ہو جائے گا۔

http://www.technologytimes.pk/mag/2010/nov10/issue03/eid_janawaroon-ke_khreed_urdu.php

No comments:

Post a Comment