Sunday, November 28, 2010

خوراک کے بحران سے کیسے بچا جائے؟

خوراک وہ لفظ ہے جس کے بغیر انسان کا زندہ رہنا مشکل ہے ،اس کو پانے کے لیے اانسان اچھے اور برے دونوں طریقوں کا استعمال کرتا ہے۔ خوراک حاصل کرنے کےلئے انسان چوری بھی کرتا ہے اور دن رات کام بھی کرتا ہے۔ خدا نے انسان کے لیے خوراک کو ضروری کر دیا ہے۔ ہوا، پانی اور خوراک یہ تین ضروریات انسان کو زندہ رکھنے کے لئے ضروری ہیں۔ آج کل کے اس دور میں انسانوں کی زیادہ اموات کی وجہ بھی یہی ہے۔آج کل کا غریب جب اپنے لیے خوراک کا انتظام نہیں کر پاتا تو وہ مر جاتا ہے۔اس زمین پر انسان کو خدا کی عبادت کرنے کے علاوہ کام کاج کے لیے پیدا کیا ہے۔ چونٹی کو بھی خدا نے اتنی عقل دی ہے کہ وہ سمجھ داری کے ساتھ اپنی خوراک جمع کر لیتی ہے،خوراک پانے کے لیے چونٹی کو بھی محنت کرنی پڑتی ہے۔
حالیہ سیلاب کے بعد یہ سننے میں آتا ہے کہ ملک شدید خوراک کے بحران کا شکار ہونے والا ہے، ویسے تو سیلاب کے بعد کھانے پینے کی اشیاءمیں اچھی خاصی مہنگائی دیکھنے میں آئی ہے جو خوراک کے بحران کا منہ بولتا ثبوت ہے مگر حکومت کا کہنا ہے کہ بحران کا کوئی امکان نہیں ہے۔
حالیہ سیلاب نے ملک میں بہت نقصان کیا ہے، ہماری کروڑوں مالیت کی فصلیں پانی کے ریلے کے ساتھ بہہ گئی ہیں۔ ملک میں موجود سڑکیں، عمارات اور بجلی کے پلانٹ تک متاثر ہوئے، ملک میں موجود ایشیاءکی سب سے بڑی آئل ریفائنری بھی پانی بھر جانے کے باعث بندکر دی گئی۔ ہمیں سب سے زیادہ جس شعبہ میں نقصان ہوا وہ زراعت کا شعبہ ہے۔
ایگری فورم پاکستان کے مطابق حالیہ سیلاب سے ملک میں تقریباً 140 ارب روپے مالیت کی فصلو ںکو نقصان پہنچا ہے جس میں80 ارب روپے کی کپاس،40 ارب روپے گنے کی فصل اور 20 ارب روپے کی چاول کی فصل شامل ہے۔ ایگری فورم پاکستان کے چیئرمین ابراہیم مغل کے مطابق پاکستان کی برآمدات کا 63 سے 65 فیصد تعلق براہ راست کپاس اور اس کی مصنوعات سے ہوتا ہے لیکن حالیہ سیلاب نے پنجاب اور سندھ میں تقریباً 12 لاکھ ایکڑ سے زیادہ رقبے کی کپاس کی فصل کو بالکل تباہ کر دیا ہے۔ صرف سندھ کے علاقوں خصوصاَ چار سدہ، مظفرگڑھ، راجن پوراور رحیم یارخان میںچار لاکھ ایکڑ سے زاہد گنے کی فصل تباہ ہوئی جبکہ چاول کی فصل پنجاب اور سندھ میں پانچ لاکھ ایکڑ پر تباہ ہوئی۔ ایگری فورم پاکستان کا کہنا ہے کہ اس سال 20 سے 30 لاکھ کاٹن کی گانٹھیں ، پانچ سے دس لاکھ ٹن چینی اور کچھ سبزیاں درآمد کرنے کی ضرورت پیش آئے گی جبکہ چاول ملکی ضروریات کیلئے کافی ہو گا۔
زرعی پیداوار میں کمی کے باعث ملک میں غذائی عدم تحفظ کی صورتحال مزید بگڑ نے کا خطرہ ہے اور ان خدشات کا اظہار عالمی ادارہ خوراک وزراعت ایف اے او نے بھی کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ گندم کے بیج کے ذخائر میں کمی اور سیلاب زدہ زمین کو دوبارہ کاشت کے قابل بنانے میں تاخیر سے لاکھوں افراد کو خوراک کی کمی کا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے تاہم مناسب انتطامات ہی ملک کوخوراک کی کمی کے خطرہ سے بچا سکتے ہیں۔
سوات میں ایریگیشن چینل سیلابی ریلے کی نذر ہونے کے باعث کاشتکاروں اور زمینداروں کو شدید دھچکا لگا ہے اور زیر کاشت اراضی دریا میں بہہ گئی ہے ، نہروں میں پانی کی بندش کی وجہ سے زمینداروں کو شدید پریشانی کا سامنا ہے۔خوراک کی کمی کا سوچ کر بھی لوگ گھبرا جاتے ہیں کیونکہ لوگ ان حالات میں بھی ییوٹیلٹی سٹورز پر لائنوںپر لگتے ہیں۔اگر خوراک کا بحران ہو گیا تو اس سے زیادہ پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑےگا۔
خوراک کے بحران سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت فوراَ احتیاتی تدابیر اختیار کرنا شروع کر دے، ایسے علاقے جن میں سیلابی پانی کا گزر ہوا ہے وہاں السی ،سورج ،مکھی ،کینولا اور دوسری تیل والی فصلوں کو بویا جائے کیونکہ وہ ان کے لیے موذوں ہیں۔
ماہرین کے مطابق جن علاقوں میں سیلابی پانی کا گزر ہوا ہے وہاں اگر سورج مکھی یا دوسرے تیل والے بیجوں کی بوائی کر دی جائے تو بہت فائدہ ہو گا۔
سندھ آباد گار بورڈ کے چیئرمین کے مطابق سورج مکھی کی کاشت ایسے علاقوں کے لیے موذوں ہے جہاں سے سیلابی پانی کا گزر ہوا ہے اوریہ وہ علاقے ہیںجہاں چاول کی کاشت کی جاتی تھی۔ ایسا کرنے سے نہ صرف ملکی خوردنی تیل جو خوراک کے لیے ضروری ہے کی ضروریات کو پورا کیا جا سکتا ہے بلکہ کثیر زر مبادلہ بھی کمایا جا سکتا ہے۔
ربیع کی فصل کو کاشت کرنے کا مناسب وقت شروع ہو چکا ہے اب ہماری حکومت کے پاس ربیع اور خریف کی فصلوں سے پیداوار حاصل کرنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے چنانچہ حکومت کا پورا زور اس کام پر لگا ہوا ہے ۔اگر ربیع اور حریف کی فصلوں سے پیداوار مکمل طور پر حاصل نہ کی جا سکے تو حکومت اتنی جلدی کوئی انتظامات نہیں کر پائے گی اور خوراک کا بحران تلواربن کر ہمارے سر پر لٹک جائے گااسی لئے جلد بہترین انتظامات کرنے کی ضرورت ہے۔
خوراک کے بحران سے نمٹنے کا ایک حل ٹیکنولوجی کا استعمال بھی ہے،بائیو ٹیکنولوجی کے زریعہ فصلوں کی پیداوار کو بڑھایا جا سکتا ہے۔ سیکرٹری نیشنل کمیشن برائے بائیو ٹیکنولوجی کے ڈاکٹر کوثر عبداللہ ملک کے مطابق زراعت کے شعبے میں بائیوٹیکنالوجی کا استعمال کر کے زرعی پیداوار میں نمایاں اضافہ کیا جا سکتا ہے ۔آج کل کے اس دور میں سائنس وٹیکنولوجی کا استعمال بہت عام بات ہو چکی ہے ملک میںبیشتر سائنس دان خوراک کی تحقیق کر رہے ہیں۔ان زرعی سائنس دانوں کا استعمال کر کے ملک کو خوراک کے بحران سے بچایا جا سکتا ہے ۔
ایشیاءکے بیشتر ممالک نے بائیو ٹیکنولوجی کے ذریعے زراعت کے شعبے میں نمایاں پیش رفت کی ہے اوریہ فصلیں ماحول پر بھی بہت مثبت اثرات مرتب کرتی ہیںکیونکہ ان فصلوں پر کیڑے مار ادویات کا استعمال بہت کم ہوتاہے۔
کپاس، مکئی اور گندم ہماری اہم ترین فصلیں ہیں ان فصلوںمیں بائیو ٹیکنولوجی کا استعمال کر کے تمام بحرانوں سے نمٹا جا سکتا ہے،ان حالات میں ایسے اقدامات نہ کئے گئے تو آنے والے دنوں میں بہت مسئلہ ہو سکتا ہے۔
وزارت خوراک و زراعت کی طرف سے کسانوں کے لئے ایسے پیکج تیار کئے جائیں جن کی بدولت کسان زیادہ پیداوار دینے کی کوشش کریں،کسانوں کو کھاد،اچھے بیج اورمناسب گوداموں کا بندوبست کر کے دیا جائے تاکہ آئندہ بارش یا سیلاب کی صورت میںفصلوں کو بچایاجا سکے۔حکومت نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ وہ کسانوں کو بیج فراہم کرے گی اور فراہمی ممکن بھی ہوئی ہے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اور کسان کس حد تک خوراک کی پیدوار دے سکتے ہیں۔
 
http://www.technologytimes.pk/mag/2010/oct10/issue01/khorak_ka_burhan_urdu.php

No comments:

Post a Comment