Monday, November 29, 2010

آلودگی کا طوفان





دنیا میں پائے جانے والے بہت سے ممالک کی طرح پاکستا ن میں بھی آ لودگی کی شرح میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔آلودگی آنے والی نسل کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔جیسے جیسے آلودگی بڑھتی چلی جا رہی ہے ویسے ویسے انسانی زندگی کے لیے خطرات میں اضافہ ہوتا چکا جا رہا ہے۔ جہاں اس وقت پوری دنیا کو خطرہ ہے وہاں پونے دو کڑور سے زائد آبادی رکھنے والا پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی ماحولیاتی آلودگی کی لپیٹ میں ہے۔فضائی ، صنعتی یا پھر سمندری تمام لحاظ شہر کراچی آلودہ ہو چکا ہے۔ عالمی ماحولیاتی اداروں کے مطابق کراچی آلودگی کے حوالے سے دنیا کا بارہواں بڑا شہر ہے۔
پاکستان انوائرنمنٹل ایجنسی نے جاپان کی مدد سے جدید ترین آلات کے ذریعے پاکستان کے پانچ بڑے شہروں میں سروے کیا ،ان شہروں میں کراچی، لاہور، اسلام آباد،راولپنڈی، پشاور، کوئٹہ، گوجرانوالہ، گجرات، فیصل آباد وغیرہ میں آلودگی کے حوالے سے سروے کیا گیا ۔
سروے کی رپورٹ کے مطابق کراچی اور لاہور میں آلودگی انتہائی خطرناک حد تک پہنچ چکی ہے۔ کراچی میں نائیٹروجن گیس(NO2)کی انتہائی مقدار ۳۹۹ مائکرو گرام پر کیوبک میٹر تک جبکہ لاہور میں ہوا میں معلق ذرات کی مقدار۱۲۶ مائکرو گرام پر کیوبک میٹر تک پہنچ گئی ہے جو کہ عالمی سٹینڈرڈ (۳۵ مائکرو گرام پر کیوبک میٹر)سے تین گنا زیادہ ہے۔
سروے کے مطابق نائٹروجن لیول کے لحاظ سے کراچی میں زیادہ سے زیادہ ۳۹۹یوجی ایم تھری اور اوسط مقدار۷۶یوجی ایم تھری ہے، لاہور میں زیادہ سے زیادہ ۲۸۰ یوجی ایم تھری اور اوسط مقدار یوجی ایم تھر۷۶ہے،کوئٹہ میں زیادہ سے زیادہ۱۷۵ یوجی ایم تھری اور اوسط مقدار۷۰یوجی ایم تھری ہے، پشاورمیں زیادہ سے زیادہ ۱۱۰یوجی ایم تھری اور اوسط مقدا۴۷اعشاریہ ۲۸ہے جبکہ اسلام آباد میں زیادہ سے زیادہ۹۰یوجی ایم تھری اور اوسط مقدار۳۰اعشاریہ اکتالیس ہے۔
پاکستان کے شہروں میں فضائی آلودگی سے ہر سال کروڑوں بچے مردہ پیدا ہوتے ہیں جبکہ غیرمعیاری پٹرول اور ڈیزل کے استعمال سے جی ڈی پی کا ۳فیصد ضائع ہو جاتا ہے۔ اس سال ہمارے ملک میں فضائی آلودگی کی شرح میں خوفناک حد تک اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ شہروں میں فضائی آلودگی عالمی معیار کی نسبت دو سے تین گنا زیادہ ہو چکی ہے۔
۲۰۰۹۔۲۰۰۸ ء ماحولیاتی اداروں کی رپورٹ کے مطابق وفاقی دارالحکومت کی فضاؤں میں آلودگی کی شرح۸۹ فیصد تک ریکارڈ کی گئی ہے جو کہ عالمی معیار سے کئی گنا زیادہ ہے۔
عالمی بینک، امریکی ماحولیاتی ادارہ اور ایشیائی ترقیاتی بینک نے پاکستان کے شہروں میں فضائی آلودگی کو ختم کرنے کیلئے فنڈز مختص کیے ہیں۔عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق پٹرول میں سیسہ کے استعمال سے پاکستان کے قومی خزانہ پر۳۶۹ کروڑ ۹۰ لاکھ امریکی ڈالر کا بوجھ پڑا ہے۔
آلودگی میں ہونے والے خوفناک اضافہ کی ایک وجہ پچھلے چند سالوں میں ہونے والی آزادانہ کار فنانسنگ بھی بیان کی جاتی ہے، اسی وجہ سے گاڑیوں کی ایک بہت بڑی تعداد پاکستان کی سڑکوں پر نطررہی ہے جبکہ پاکستان کا روڈ سٹرکچر اسکی اہلیت نہیں رکھتا ،اب سی ڈی اے اور اس سے منسلک ادارے یہ کوشش کر رہے ہیں کہ نئی سڑکوں کو چوڑا اور پختہ بنایا جائے، سڑکوں کی توسیع کے نتیجے میں کٹنے والے درختوں سے آکسیجن کی کمی میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کے علاوہ گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں، گرمی، سڑکوں پر اڑنے والی گرد و غبار، فیکٹریوں سے نکلنے والا دھواں اور انکے مضر صحت مادے نے پاکستان کی ماحولیاتی آلودگی میں بے انتہا اضافہ کیا ہے۔
انسان کے پاس اس کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں کہ وہ اسی ہوا میں سانس لے خواہ وہ آلودہ ہی کیوں نہ ہو۔ تاہم وہ ان خطروں میں کافی حد تک کمی ضرور لا سکتا ہے۔ اگر وہ زیادہ آلودہ علاقوں میں رہتا ہے تو کوشش کرے کہ زیادہ سے زیادہ کام گھر بیٹھ کر کرے تاہم آج کل کے اس کمپیوٹر کے دور میں یہ ممکن بھی ہے اورگھر میں کنڈیشننگ سسٹم وغیرہ لگوائے۔ زیادہ ٹریفک والی جگہوں اور صنعتی علاقوں میں جانے سے گریز کیا جائے۔اس کے علا وہ پینے کے پانی کو ابال کر پیا جائے۔
ملک میں بہنے والے بیشتر دریاؤں میں اس وقت کارخانوں کی جانب سے زہریلا مادہ چھوڑنے کی وجہ سے دریاؤں میں آلودگی میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے ۔ موجودہ صورت حال کے مطابق دریائے سندھ میں ۵۱ فیصد پانی کی کمی واقع ہو چکی ہے، بیاس بھی سوکھ رہاہے اور ہزاروں ایکڑ زمینیں بنجر ہو رہی ہیں۔ ماہرین کے مطابق حکومت نے اس حوالے سے فوری طور پر اقدامات نہ کئے تو آئندہ چند سالوں پانی کی شدید قلت پیدا ہو جائے گی۔ دریاؤں میں بیشتر مقامات پر دھول اڑتی دکھائی دے گی۔
ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق دنیا میں چین سب سے زیادہ آلودہ ممالک میں شامل کیا جاتا ہے جبکہ اس وقت امریکہ کو سر فہرست تصور کیا جاتا ہے۔ تاہم ’یو سی ایل‘ برکلے کی تحقیقاتی رپورٹ اس کی نفی کرتی ہے۔
اس تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چین میں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کے بارے میں موجودہ کمپیوٹر ماڈل نے غلط اندازے لگائے ہیں ،اس طرح ۰۷۔۲۰۰۶ میں ہی چین دنیا میں سب سے زیادہ آلودگی پھیلانے والا ملک بن چکا تھا۔
حکومت نے آلودگی کو کم کرنے کے لیے حفاظتی اقدامات شروع کر رکھے ہیں جن کے موثر نتائج دیکھنے میں آ رہے ہیں۔ سی این جی کو ماحول دوست ایندھن تصور کیا جاتا ہے اورپاکستان سی این جی استعمال کرنے والے ممالک میں سر فہرست ہے۔یہاں پر چلنے والی گاڑیو ں میں سے ۸۵ فیصد گاڑیاں سی این جی سے چلتی ہیں۔حال ہی میں حکومت نے سی این جی بس سروسزکا آغاز بھی کیاہے اور آنے والے دنوں میں ا ن بسز میں اضا فہ کیا جائے گا۔
رواں سال پاکستان میں فیکٹریوں کو آلودگی پھیلانے پر جرمانے عائد کیے گئے ہیں ،اس کے علا وہ بہت سی فیکٹریوں کو نوٹس بھی دیئے گئے ہیں۔ آلودگی کو قابو کر نے کے لیے ضروری ہے کہ موثرانتظامات بروئے کا ر لائے جائیں۔

http://www.technologytimes.pk/mag/2010/aug10/issue01/alodgee_ka_tofan_urdu.php

No comments:

Post a Comment