Monday, November 29, 2010

کچھ اس طرف بھی دھیان دیں

پاکستان کو خدا تعالی نے بہت ہی خوبصورت موسم عطا کئے ہے۔ پاکستان میں چار موسم (گرمی، سردی، خزان، بہار) پائے جاتے ہیں، ان موسموں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان میں زراعت کو باآسانی فروغ دیا جا سکتا ہے اور اس طرح پاکستان میں پائی جانے والی فصلوں کو بیروں ممالک بیچ کر کثیر زرمبادلہ بھی حاصل ہو گا۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ موسم کا خاص خیال رکھا جائے یعنی سردیوں میں نشوونما پانے والی فصلوں کو سردیوں میں اورگرمی میں نشوونما جانے والی فصلوں کو گرمیوں میں بویا جائے، تب ہی ہمیں اچھی فصل مل سکے گی۔ظاہر ہے ملک میں جب اچھی اور کثیر تعداد میں فصل کی پیداوار ہو گی تو ملک کو منافع بھی اتنا ہی اچھا ملے گا۔
پاکستان میں پایا جانے والا گنا خاص اہمیت کا حامل ہے، یہ پاکستان کی نقد آور فصل ہے اور پاکستان اس فصل کو بیرون ممالک بیچ کر زرمبادلہ کماتا ہے۔ پاکستان میں گنے کی فصل پیداوار کے لحاظ سے کپاس کے بعد دوسرے نمبر پر شمار کی جاتی ہے اسی لئے گنے کی پیداوار پر خاص توجہ دی جاتی ہے۔ پاکستان میں پیدا ہونے والا گنا اور اس کی مصنوعات کو بیرون ملک فروخت کیا جاتا ہے۔ گنے کی کاشت میں ہندوستان سرفہرست ہے، اس کے بعد برازیل‘ کیوبا‘ میکسیکو‘ پاکستان‘ شمالی امریکا‘ جنوبی افریقہ اور پھر کولمبیا کا نمبر آتا ہے۔ گنے کا تعلق گھاس کے خاندان سے ہے۔ یہ موسمی پودا ہے حالانکہ اس کی جڑیں سارا سال زندہ رہتی ہیں۔ گنا 2.5 سے 4.25 میٹر لمبا ہوتا ہے۔ گنے کا تنا مختلف محیط رکھتا ہے لیکن عام طور پر 2.5 سے 8 سینٹی میٹر تک گول ہوتا ہے۔ تنے پر بہت سی گرہیں ہوتی ہیں جو ہر چند سینٹی میٹر کے بعد بنی ہوتی ہیں۔
گنے کے ایک سو گرام میں 90.2 فیصد رطوبت 0.1 فیصد پروٹین‘ 0.2فیصد چکنائی‘ 0.4 فیصد معدنی اجزاءاور 9.1 فیصد کاربوہائیڈریٹس پائے جاتے ہیں۔ اس کے معدنی اور حیاتنی اجزا میں 10 ملی گرام کیلشیم‘ 10 ملی گرام فاسفورس اور 1.1 ملی گرام آئرن شامل ہیں۔ اس کے ایک سو گرام میں 39 کیلوریز پائی جاتی ہیں۔
پاکستان ایک ملین ایکڑ پر گنے کی فصل کو بوتا ہے جس سے کل ۶۴ ملین گنے کی پیداوار حاصل ہوتی ہے،کاشت کے لئے پنجاب اور سندھ کے علاقے مشہور ہیں۔ گنے کی فصل کوصوبہ پنجاب میں ۰۶ سے ۵۶ فیصدکاشت کیا جاتا ہے جبکہ اس سے ملک کی ۰۴ فیصد گنے کی پیداوارحاصل ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں چینی بنانے کے کارخانے پنجاب اور سندھ میں لگائے گئے ہیں۔ سندھ میں پنجاب سے بھی زیادہ گنے کی فصل کاشت کی جاتی ہے۔ سندھ سے ۰۵ فیصد گنے کی پیداوار حاصل کی جاتی ہے۔ پاقی تھوڑی بہت پیداوار کا حصہ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان سے آتا ہے۔
حالیہ سیلاب نے پاکستان کو دس سال پیچھے دھکیل دیا ہے، پاکستان میں پائی جانے والی زرعی اجناس کو سخت نقصان ہوا ہے۔ خاص طور پر پاکستان میں پائی جانے والی کپاس اور گنے کی فصل کو سخت نقصان ہوا، اس کے علاوہ دوسری اجناس مثلاَ گندم، چاول اور سبزیوں کو بھی نقصان ہوا ہے۔
لاکھوں افراد امداد کے شدید منتظر ہیں، متاثرین کے مال،مویشی،فصلیں یہاں تک کہ گھر سیلابی ریلے میں بہہ گئے۔اب ان متاثرین کو دوبارہ آباد کرنے، ان کوسہارا دینے کے لئے بین الاقوامی اور قومی دونوں سطح پر مدد کی ضرورت ہے۔ سیلاب سے متاثرہ 2 کروڑ افراد کو فوری مدد پہنچانا حکومت کے لئے ایک بڑا چیلنج ہے۔ایک اندازے کے مطابق صرف سندھ میں ۲۲ فیصد گنے کی فصل تباہ ہو گئی ہے۔
قیصر بنگالی کے مطابق دریا سندھ کے دائیں کنارے پر گنے اور اس کے علاوہ متعدد فصلوںاور سبزیاں کو پانی میں ڈوب جانے کی وجہ سے شدید نقصان ہوا ہے اور اس کا اثر پاکستان کی جی ڈی پی پر پڑے گا، ان علاقوں میں آبپاشی کا نظام بھی متاثر ہوا ہے اکثر آبی گزرگا ہیں دوبارہ بنانے کی ضرورت پڑے گی۔ گنے کی فصل تباہ ہونے کے باعث چینی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہوتا چلاجا رہا ہے۔ اگر یوں ہی اضافہ ہوتا رہا تو غریب عوام کے لئے گزارہ کرنا مشکل ہو جائے گا۔
کراچی شوگرملز ایسوسی ایشن نے کہا ہے کہ حالیہ بدترین سیلاب کے باعث بڑے پیمانے پر گنے کی فصل کی تباہی کے سبب رواں سال چینی کی پیداوار 5 لاکھ ٹن کم رہے گی۔ شوگر انڈسٹری ذرائع کا کہنا ہے کہ سیلاب سے گنے کی فصل کو شدید نقصان پہنچا ہے اسی وجہ سے اس سال چینی کی پیداوار میں نمایاں کمی کا خدشہ ہے۔ ذرائع کے مطابق اس وقت شوگرملوں کے پاس 4.5 لاکھ ٹن جبکہ ٹریڈنگ کارپوریشن کے پاس اڑھائی لاکھ ٹن چینی کا اسٹاک موجود ہے لیکن سیلاب کی وجہ سے گنے کا کریشنگ سیزن تاخیر سے شروع ہونے کی وجہ سے مزید 2لاکھ ٹن چینی کی ضرورت ہے اگر ٹریڈنگ کارپوریشن بروقت چینی درآمد کر لیتی ہے تونہ صرف ملکی چینی کی ضرورت پوری ہو جائے گی بلکہ چینی کی قیمتیں بھی کم ہو جائیں گی لہٰذا ٹریڈنگ کارپوریشن کو چاہئے کہ وہ جلد از جلد درآمدی چینی مارکیٹ میں سپلائی کرے۔
وفاقی وزیر برائے خوراک و زراعت نذر محمد گوندل کاکہنا ہے کہ 81 لاکھ 85 ہزار ٹن گنے کی پیداوار ضائع ہوگئی ہے اور سب سے بڑا خطرہ چینی کی کمی کا ہے اور اس پر قابو پانے کے لئے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ نذر محمد گوندل کا خیال ہے کہ سیلاب کی تباہی کے باعث رواں سیزن میں چینی کی پیداوار طلب کے مقابلے میں بارہ لاکھ ٹن کم رہے گی۔ جبکہ ملز مالکان نے کہا ہے کہ شکر کی پیداوار چھتیس لاکھ ٹن متوقع ہے اور پانچ لاکھ ٹن سے بھی کم خام چینی درآمد کی جائے گی۔ حالیہ سیلاب سے قبل پیداوار کا تخمینہ اڑتیس لاکھ ٹن لگایا گیا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق اس سال صرف تیس لاکھ ٹن شکر پیدا ہو سکے گی، جبکہ ملکی کھپت بیالیس لاکھ ٹن سالانہ ہے۔ حکومت نے خام چینی کی درآمد پر پچیس فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کرنے کا اعلان کیا ہے تاکہ ملکی طلب کو درآمد سے پورا کیا جاسکے۔ حکومت سندھ نے سیلاب زدگان کی بحالی کیلئے صوبے میں دوزرعی اجناس پر سیلاب ٹیکس لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ منصوبے کے تحت گنے کی فصل پر ڈیڑھ روپے فی من جبکہ کپاس کی فصل پر بارہ روپے فی من لگایا جائے گا۔
گنے کی کٹائی نومبر میں شروع ہو گی اور مارکیٹ میں گنے کی قیمت آنے والے سیزن کیلئے ایک سو ستائیس روپے فی من مقرر کی گئی ہے جس پر ڈیڑھ روپے کاشتکار سے سیلاب ٹیکس وصول کیا جائے گا۔ اس ٹیکس کا استعمال اگر صحیح طرح سے ہو تو زراعت کے متعدد مسائل اپنے آپ ہی حل ہو جائیں گے، صرف منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ جلد چینی کا کوئی متبادل ڈھونڈ لیا جائے ورنہ پھر سے چینی کا بحران جنم لے سکتا ہے چنانچہ حکومت کی طرف سے چقندر شوگر بیٹ کو گنے کی متبادل فصل کے طور پر کاشت کرنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ اگر گنے کے متبادل کے طور پر (چقندر) شوگر بیٹ کو استعمال کر لیا جاتا ہے تو نہ صرف چینی کی کمی پوری ہو جائے گی بلکہ ہم چینی کو بیرون ممالک بھی فروخت کر سکیں گے۔ سیلاب کے آنے سے پہلے بھی چینی کا شدید بحران تھا اور لوگ یوٹیلٹی سٹوز پر قطاروں میں کھڑے نظر آتے تھے، یوں تو اب بھی لوگ قطاروں میں کھڑے ہوتے ہیں مگر فرق صرف اتنا ہے کہ اب لوگ چینی صرف چینی کے لئے نہیں بلکہ راشن کارڈ کے ذریعہ سودا لینے کے لئے کھڑے ہوتے ہیں۔

http://www.technologytimes.pk/mag/2010/oct10/issue03/kuch_is_tarf_be_urdu.php

No comments:

Post a Comment