Sunday, November 28, 2010

بھوک کے خلاف متحد ہو جاﺅ

دنیا کے دیگر اقوام متحدہ کے رکن ممالک کی طرح پاکستان میں بھی ۶۱ اکتوبر ۰۱۰۲ءکو عالمی یوم خوراک منایا گیا، پاکستان اس دن کوہر سال انتہائی جوش و جزبے کے ساتھ مناتا ہے۔ یہ دن ہمیں ہر سال یاد کراتا ہے کہ ہمارے لئے خوراک کی کیا اہمیت ہے اور اگر خوراک نہ ہو یا پھر کمی ہو جائے تو کیا ہوتا ہے۔ خوراک ہمارے لئے اتنی ہی ضروری ہے جتنا کہ انسان کے لئے اوکسیجن، بس صرف فرق اتنا ہے کہ آکسیجن کے بغیر انسان ایک منٹ بھی زندہ نہیں رہ سکتا جبکہ خوراک کے بغیرانسان ایک یا ایک سے زیادہ دن زندہ رہ سکتا ہے۔ خوراک کی اہمیت ہر انسان کےلئے برابر ہے، کوئی یہ نہیں کہ سکتا کہ وہ خوراک کے بغیر زندہ رہ سکتا ہے۔
اقوام متحدہ کوعا لمی یوم خوراک کا دن مناتے ہوئے ۹۲ سال گزر چکے ہیں جبکہ یہ تیسواں سال ہے، اس سال اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ خوراک کے قیام کو ۵۶ برس ہو چکے ہیں۔ اس سال عالمی یوم خوراک کے نعرے کا عنوان بھوک کے خلاف متحد ہوجارکھا گیا، جس کے تحت قومی، علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر بھوک کے خلاف کی جانے والی کاوشوں اور اقدامات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
اقوام متحدہ کی کاوشوں سے ۶۱ اکتوبر ۵۴۹۱ءکوخوراک اور زرعی پیداوار بڑھانے کی تنظیم کا قیام عمل میں آیا تھا جبکہ ۳۱ ستمبر ۷۴۹۱ءکو پاکستان نے اس ادارے کی رکنیت حاصل کی، پاکستان کے لیے ایف اے او کی امداد کے پہلے تیکنیکی معاہدے پر ۱۵۹۱ءمیں دستخط ہوئے اور اس وقت سے ایف اے او پاکستانی حکومت اور عوام کو امداد اور رہنمائی فراہم کر رہی ہے، اس وقت ایف اے او کے پاکستان بھر مں ۴۴ دفاتر موجود ہیں اور بھرپور انداز میں کام کر رہے ہیں اور ان دفاتر میں ۰۰۲ کے قریب ملکی اور غیر ملکی افراد کام کر رہے ہیں۔
ہم بھوک اور خوراک کی کمی کو متحدہو کر ہی قابو کر سکتے ہیں، ہماری طاقت ہماری متحدہ قوت ہی ہوسکتی ہے۔ ہماری کامیابی اداروں کے تعاون ہی کی بدولت ممکن ہو سکے گی۔ پاکستان میں خوراک کی کمی کو پورا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ زرعی اجناس کو زیادہ مقدار میں پیدا کیا جائے اور ہر سال خوراک کی پیداوار بڑھانے پر خصوصی توجہ دی جائے۔
بین الاقوامی سطح پر تمام ادارے بھوک کو مٹانے اور خوراک کی کمی کو پورا کرنے میں کامیابی صرف اسی صورت میں حاصل کر سکتے ہےں کہ جب بین الاقوامی فنڈ برائے زرعی ترقی، ( آئی ایف ڈی اے) ادارہ برائے خوراک و زراعت (ایف اے او) اور ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) اور دیگر بین الاقوامی ادارے اور تنظمیں مشترکہ لائے عمل اورمشترکہ کوششیں کریں۔متعدد دیگر ادارے خصوصا َعالمی بنک، آئی ایم ایف، علاقائی ترقیاتی بنک، ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن اور ایسی دیگر تنظیمیں اور ادارے غربت کی کمی،بھوک کے خلاف لڑائی اورخوراک جیسے اہم معاملات میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
بلوچستان میں ایف اے او متعدد منصوبوں پر عمل درآمد کر رہا ہے جس میں "بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں زراعت کی معاونت" کا منصوبہ ( اے بی بی اے) شامل ہے، یورپی یونین کے مالی تعاون سے خوراک کی سہولت کا منصوبہ اور پشین میں لائیو اسٹاک کا ایک منصوبہ بھی زیر عمل ہے، یہ منصوبے مختلف علاقوں میں بروئے کار لائے جا رہے ہیں، ان میںسیلاب زدگان کو امداد کی فراہمی کے علاوہ خوراک کی کمی کی بحالی کے منصوبے بھی شامل ہیں۔
پاکستان کے قدرتی ذخائر اور پیداوار کے لحاظ سے صوبہ بلوچستان پاکستان کے کسی صوبے سے کم نہیں ہے ،یہاںپرپھلوں،سبزیوں اور دوسری اجناس کی پیداوار پر توجہ دی جاتی ہے اور لائیواسٹاک کی بھی یہاں کوئی کمی نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ ۹۰۰۲ءمیںایف اے او نے بلوچستان کے سرحدی علاقوں میںزراعت کی ترقی اور خوشحالی کے لئے اے بی بی اے منصوبے کا آغاز کیا۔بلوچستان میں ۱۱۵ تنظیمیں مل کر زراعت کی ترقی کے لئے کام کر رہی ہیںاور یہ تنظیمیں کسانوں کو مشینیں،اعلی معیار کے بیج اور پھل داردرخت ۰۵ فیصد ریایت پر فراہم کرتی ہیں۔ اس منصوبہ کی بدولت صوبہ بلوچستان میں ایک اندازے کے مطابق اب تک۰۰۰۰۱ سے ذائدپھل دار درخت لگ چکے ہیںجن سے دوگناہ پیداوار میں اضافہ ہوا ہے۔
حالیہ تباہ کن سیلاب نے پاکستان کے چاروں صوبوں کو متاثرکیا،کروڑوںلوگ سیلاب سے متاثر ہوئے اور ان سب کے لئے خوراک کا انتظام کر ناسخت مشکل کام تھا ۔بین الاقوامی سطح پر تعاون اور اداروں کی مشترکہ کاوشوں کی بدولت متاثرین میں نا صرف خوراک کی تقسیم کوبا آسانی سر انجام دیا گیابلکہ رہنے کا انتظام بھی کیا گیا ،یہ سب اداروں کے تعاون کی وجہ سے ہی ہو سکا ہے۔
حالیہ سیلاب نے زراعت کے شعبے میں کام کرنے والوں کو بری طرح متاثر کیا ہے یہی وجہ ہے کہ ایف اے او ان کی مشکلات کو حل کرنے کے لیے مختلف انداز اور صورتوں میں کام کر رہا ہے، اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ اگلے سال کی فصل متاثر نہ ہو۔
امریکی تنظیم فوڈ اینڈ ایگریکلچر آورگنائزیشن (ایف اے او) نے سیلاب سے ہونے والی تباہ کاریوں کی رپورٹ بنانے میں پاکستان کے اداروں کے خاص مدد کی ۔ سیلاب نے پاکستان کے زراعت کے شعبہ کو بہت نقصان پہنچایا ہے ،یہاں کی زمین کی زرخیزی میںتوبہت اضافہ ہوا مگر متعدد فصلوں کی پیداوار بھی مشکل ہو گئی ہے ۔ان حالات میں خوراک کی کمی کا سامنا ہو سکتا ہے۔
پاکستان میں سیلابوں نے جو تباہی مچائی ہی اس کا اثر کھانے پینے کی اشیاءپر شدید پڑا ہے۔ ایک تو اتنی زیادہ تعداد میں فصلیں بہہ گئیں دوسرا زمین بھی پانی سے بھر گئی ہے اوردوبارہ فصلیں لگانے میں کسانوں کو شدیدمسائل کاسامنا ہے۔اس کا اثر اب غریب عوام پر پڑے گا اشیاءخوردونوش مزید مہنگی ہوں گی اورہو بھی رہی ہیں مثال کے طور پر چینی آج کل ۰۹ روپے کلو مل رہی ہے ،ایسے میں غریب عوام کا گزارہ کرنا سخت مشکل ہے۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان کی ۰۵ فیصد آبادی غذائی قلت کا شکار ہے، گذشتہ ۵ برسوں کے دوران پاکستان میں کھانے پینے کی قیمتوں میں ۰۵ فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ دنیا کے ۵۱ فیصد افراد بنیادی خوراک سے محروم ہیں اور بھوک کے باعث روزانہ۴۲ ہزار افراد ہلاک ہوجاتے ہیں۔بھوک کے باعث حلاقتوں کی تعداد میں ہر سال مسلسل اضافہ ہو تا چلا جا رہا ہے۔
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً ایک ارب لوگوں کو بھوک کا سامنا ہے جس کی بڑی وجہ خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتوںہیں۔
عالمی جائزے کے مطابق۰۵۰۲ تک نو ارب کی آبادی کی غذائی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے خوراک کی موجودہ عالمی پیداوار میں ستر فیصد اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔دنیا میں کوخوراک کی پیداوار بڑھانے اور غربت کو کم کرنے کے لئے مزید اقدامات کے ضرورت ہے،خوراک کی طلب ہر سال بڑھتی چلی جا رہی ہے اس کو قابو کرنے ہمیں مل جل کر اقدامات کرنے ہوں گے۔

http://www.technologytimes.pk/mag/2010/oct10/issue04/bhook_ka_khlaf_urdu.php

No comments:

Post a Comment