Sunday, November 28, 2010

پاکستان میں فصلوں کی پیداوار میں حائل رکاوٹیں

پاکستان نے زراعت میں تو ترقی کی اور زرعی ملک ہونے کی وجہ سے آگے بھی زرعی تحقیق اور ترقی کا دور آگے بھی جاری رہے گا مگر پاکستان کی فصلوں میں بیج اور کھاد میں ملاوٹ اور روایتی طریقہ کاشتکاری پاکستان کی زراعت کو شدید متاثر کر سکتی ہے۔ زرعی سطح پر ہونے والی ملاوٹ کو روکنا وقت کے ساتھ ساتھ اور بھی ضروری ہوتا چلا جا رہا ہے۔ حال ہی میں پاکستان میں آنے والے سیلاب نے فصلوں کو شدید متاثر کیا، خاص کر کپاس کی فصلوں کو شدید نقصان ہوا۔ سندھ کے بیشتر علاقوں میں کپاس کی فصلیں کھیت میں کٹائی کے بعد یوں ہی چھوڑ دی گئی تھیں اور سیلاب کپاس کو بہا کر لے گیا۔ اس کے علاوہ گنا اور چاول کی فصل کو بھی نقصان ہوا اور ان سب نقصانات کا نتیجہ ہمیں کھانے پینے کی اشیاءکی قیمتوں میں اضافہ کی صورت میں دیکھنے میں آرہا ہے۔ ان سب باتوں کا ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ سیلاب کی تباہی اور نقصانات کے بعد مزید روایتی طریقہ کاشتکاری اور بیج، کھاد میں ملاوٹ زرعی پیداوار کو شدید متاثر کر سکتی ہے۔
اعلیٰ قسم کے بیج اجناس کی پیداوار میں اضافہ کا باعث بنتے ہیں، اگر ان میں ملاوٹ ہو گی تو فصلوں کی پیداوار میں کمی آئے گی۔ مناسب بیج اور کھاد کا استعمال پیداوار کے لئے سخت ضروری ہوتا ہے۔ غریب کسان جن کا مقصد ہی اچھی پیداوار حاصل کر کے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنا ہے وہ کم پیداوار حاصل کرنے کے بعد مصیبتوں کا شکار ہو جاتے ہیں اور فصل کی دوبارہ بوائی کے لئے بھی قرضوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ فصلوں کی پیداوار میں کمی کی ایک وجہ کسان خود بھی ہوتا ہے کیونکہ وہ کبھی کبھی بغیر سوچے سمجھے بیج کا انتخاب کر لیتا ہے اور اس کا نقصان پیداوار کی کمی کی صورت میں سب سے زیادہ کسان ہی کو ہوتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق صرف اچھے بیجوں کے استعمال سے ہی ملک کی زرعی پیداوار میں تقریباً بیس فیصد اضافہ ممکن ہے۔
پاکستان میں زراعت کی راہ میں حائل سب سے اہم مسئلہ سیم وتھور ہے، پنجاب کی اراضی میں سیم و تھور عام مرض ہے۔ پاکستان کا ۲۴۶،۳۹،۹۲ ایکڑ رقبہ تھور سے اور ۳۳۵۵۴ ایکڑ رقبہ سیم سے متاثر ہوچکا ہے۔ یہ موذی مرض تیزی سے پھیلتا جا رہا ہے اور زرعی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن رہا ہے۔ اس کو حل کرنے کے لئے حکومت کوشش کر رہی ہے اور متعدد علاقوں میں ٹیوب ویل لگائے گئے ہیں تاکہ ان علاقوں میں زمین میں موجود پانی کی سطح کو کم کیا جا سکے۔ اس کے علاوہ زرعی سائنسدان بھی تحقیق کر رہی ہیں کہ کس طرح سیم وتھور زدہ زمین کو قابل کاشت کیا جا سکے۔ متعدد ایسی فصلیں بھی دریافت کی گئی ہیں جو سیم و تھور زدہ حصہ میں کاشت کی جا سکتی ہیں۔
کاشتکاروں کی بڑی تعداد پرانے کاشتکاری کے آلات استعمال کرتی ہے۔ جدید آلات کے استعمال سے وہ ابھی پوری طرح واقف بھی نہیں ہوئے اور نہ غریب کسانوں کے مالی وسائل ان کی خریداری کی اجازت دیتے ہیں۔ پرانے طریق کاشتکاری کے باعث پاکستانی کاشتکار اپنی اراضی سے پوری پیداوار حاصل کرنے میں ناکام ہو جاتے ہےں۔ ایک اور مسئلہ جو کسانوں میں پایا جاتا ہے وہ زمین کا بٹوارہ ہے۔
کسان زمین کے چکر میں ایک دوسرے سے لڑتے ہیں اور ان سب معاملات میں نقصان فصلوں کی پیداوار کا ہوتا ہے۔ بٹوارے کے بعد زمین چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم ہو جاتی ہے اور یہی پیداوار میں کمی لاتی ہے۔ کسانوں کو چاہیے کہ وہ امن اور بھائی چارے سے رہیں اور زینوں کو حصوں میں تقسیم نہ کریں بلکہ پیداوار سے جو کچھ حاصل ہو اس کا حصہ کریں اس طرح ہر ایک کو اس کا حصہ بھی مل جائے گا اور فصل کی پیداوار میں کمی بھی نہیں آئے گی۔ ایک اندازے کے مطابق ۰۷ فیصد کاشتکاروں کے پاس دو سے ڈھائی ایکڑ سے بھی کم زمین ہے، ۵۲ فیصد کے پاس ڈھائی سے ۵۲ ایکڑ تک زمین ہے اور صرف ۵ فیصد کے پاس ۵۲ ایکڑ سے زائد زمین ہے۔ حالات کچھ بھی ہوں اگر زمین کا بٹراوارہ کیا جائے گا تو اثر سیدھا فصل پر پڑے گا اور کوئی بھی کسان یہ نہیں چاہے گا کہ اس کی فصل کی پیداوار کم ہو۔
حال ہی میں پاکستان کے ایک علاقے میں ناقص بیج کے استعمال سے لاکھوں روپے کا نقصان ہو گیا اور جس کمپنی سے بیج خریدا گیا تھا اس کمپنی نے بیج کی جانچ کرنے کے بجائے غیر شائستہ رویے کا مظاہرہ کیا۔ اب ان کسانوں کی زمین بنجر ہو گئی ہے اور سوائے حکومت کی کارروائی کے کسانوں کے پاس اور کوئی راستہ نہیں ہے۔
ذرائع کے مطابق بدین میں جعلی زرعی ادویات، مصنوعی یوریا کھاد اور ناقص ٹماٹروں کا بیج فروخت ہو رہا ہے۔ ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ کچھ اعلی حکام اور پولیس والے یوریا کھاد میں مصنوعی کھاد ملا کر غریب آبادگاروں کو فروخت کر رہے ہیں اور دونوں ہاتھوں سے انھیںلوٹ رہے ہیں، کروڑوں روپے کی زرعی اجناس کے مصنوعی بیج فروخت کر کے پورے ملک کی معیشت اور مستحکم معاشی نظام کو تباہ وبرباد کررہے ہیں۔ ان سب معاملات کی وجہ سے فصلیں خراب ہو سکتی ہیں اور اگر یوں ہی ناقص بیج اور کھاد کا استعمال ہوتا رہا تو لاکھوں ایکڑ زمینیں تباہ ہو جائیں گیںاور ہم تباہ وبرباد ہو جائیں گے۔
پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس کی عوام زرعی لحاظ سے بہت شعور رکھتی ہے اور پاکستان کے ان پڑھ لوگ بھی کاشتکاری کر کے کافی پیداوار لے رہے ہیں۔ اب اگر ان کاشتکاروں میںپڑھے لکھے افراد کا تبکا شامل ہو جائے تو فصلوں کی یہ پیداوار دوگنی ہو جائے گی۔ہمارے زرعی سائنسدان کوشش کر رہے ہیں کہ فصلوں کی نئی اقسام بنائی جائیں تاکہ نئی اقسام کو بیرون ممالک فروخت کر کے اچھا زرمبادلہ کمایا جا سکے۔
اگر پاکستان کی پیداوار کے لحاظ سے بات کی جائے تو پاکستان کی متعدد فصلیں بیرون ممالک فروخت کی جاتی ہیںان میں کپاس، گندم، گنااور چاول اہم فصلیں ہیں،پاکستان میں پائی جانے والی فصلوں کو بیرون ممالک بیچ کر کثیر زرمبادلہ کمایا جاتا ہے،پاکستان میں پائی جانے والی کپاس بیرونی منڈیوں میں بہت مشہور ہے۔
ہمارا ملک کپاس کی پیداوار میں دنیا میں تیسرے نمبر پرشمار کیا جاتا ہے جبکہ اس کی کی کاشت ۳ ملین ایکڑ سے زاہد رقبے پر کی جاتی ہے اور یہ پاکستان میں سب سے زیادہ پیداوار دینے والی فصل ہے۔پاکستان ۹ ملین کپاس کی گانٹھوں کی پیداوار ہر سال دیتا ہے۔گنا پاکستان کی دوسری اہم فصل ہے،پاکستان کی اس فصل کی بھی بیرون ممالک میں بڑی مانگ ہے ۔کپاس کے بعدگنا پیداوار کے لحاظ سے دوسری اہم اور مقبول ہونے والی فصل ہے۔
دنیا میں پاکستان کوگنے کی پیداوار میںپانچویں جبکہ چینی کی پیداوار میں پندرہویںنمبر پر شمار ہوتا ہے۔پاکستان میں گنے سے ۴۸ شوگر ملوں کو چلایا جاتا ہے اسی لئے چینی کی صنعت کو ٹیکسٹائل کے بعد دوسری بڑی صنعت کی حیثیت حاصل ہے۔پاکستان گندم کی پیداوار کے لحاظ سے دنیا میں تیسرے نمبر پر شمار ہوتا ہے،گندم بھی نقدآور فصل ہے اور پاکستان کے لئے کمائی کا ذریعہ ہے۔پاکستان چاول کی پیداوار میں بھی بہت مشہور ہے ،ہمارا چاول چائنہ، افریقہ، انڈونیشیاءاور امریکہ کے علاوہ بہت سے دیگر ممالک میںپاکستان کے چاول کی بڑی مانگ ہے۔ پاکستاں کا چاول دنیا میں تیسرے نمبر پر جانا جاتا ہے۔پاکستان میںچاول کی کاشت۲ئ۶ملین ٹن کی جاتی ہے۔پاکستان کے باسمتی چاول کی بیرون ممالک بڑی مانگ ہے ۔پاکستان میںپائی جانے والی چاول کی اقسام میں سیلااور باسمتی مشہور اقسام ہیں۔پاکستان اپنی ان زرعی مصنوعات کی وجہ سے دنیا میں زرعی شعبہ میں مشہور ہے۔ پاکستان کیونکہ زرعی ملک ہے اور اس کی ترقی کا انحصار زراعت پر ہے اسی لئے زراعت کی ترقی اور اس کاخیال نہایت ضروری ہے۔

http://www.technologytimes.pk/mag/2010/nov10/issue02/pakistan_ma_fasloon_ke_urdu.php

No comments:

Post a Comment