Sunday, November 28, 2010

زراعت ، بائیوٹیکنولوجی اور جدید تحقیق

پاکستان میں زراعت کو بہت اہمیت حاصل ہے ،ملک کی تقریباَ ۰۷ فیصد آبادی کا پیشہ زراعت ہونے کی وجہ سے پاکستان کی ترقی کا انحصار بھی زراعت ہی پر ہے۔فصلوں کی بہتر پیداوار حاصل کر کے انھیں بیرون ممالک فروخت کیا جاتا ہے جس سے زر مبادلہ حاصل ہوتا ہے۔پاکستان اور زراعت کے رشتہ کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ پاکستان کی عوام پاکستان کی پیدائش سے پہلے ہی زراعت کے پیشے سے منسلک تھی۔ پاکستان کے حصے میں آنے والے علاقوں میں سے بیشتر علاقوں کی عوام کھیتی باڑی کے پیشہ سے منسلک تھی اور ان کا گزارا بھی اسی پر تھا۔
پاکستان میں پائی جانے والی اہم فصلوں میں کپاس، گنا، گندم اور چاول شامل ہیں۔
پاکستان کیونکہ زرعی ملک ہے اور اس کی ترقی کا انحصار زراعت پر ہے اسی لئے یہاں کی زراعت میں جدید طرز کی ٹیکنولوجی کا استعمال ضروری ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ زراعت میں ٹیکنولوجی کا استعمال پیداوار میںاچھا خاصا اضافہ کر سکتا ہے۔گزشتہ ۵۲ سالوں میں دنیا کے بہت سے ممالک نے بائیو ٹیکنولوجی، ایگروکیمیکلز کے استعمال اور بیجوں کی نئی اقسام کاشت کر کے فی ایکڑ زرعی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ کیا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کے ۲۱ترقی پذیر ممالک کے تقریباً۱۱ ملین چھوٹے کاشتکار بائیو ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
پاکستان میں بھی بائیوٹیکنولوجی اوردیگر زرعی ٹیکنالوجی کا استعمال شروع کر دیا گیا ہے۔پاکستان میںزرعی ٹیکنولوجی کو متعارف کروانے میں زرعی ترقیاتی بنک کا بہت بڑا ہاتھ ہے،جب بنک نے زرعی ترقیاتی پروگرام شروع کیا تو متعددایسی دشواریاں تھیں جن میں جن پر قابو نے کی اشد ضرورت تھی اور لوگ جہالت کی وجہ سے جدید ٹیکنولوجی سے بھی ناواقف تھے ۔یہ حکومت اور اس کے اداروں کی ہی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ آج لوگوں نے ٹیکنولوجی کا استعمال شروع کر دیا ہے۔
حالیہ سیلاب میں ملک کی بیشتر نقد آور فصلوںکانقصان ہوا ،کپاس کی فصل تو مکمل طور پر تباہ ہو گئی اور اس کی ذمہ دار کسی حد تک حکومت بھی ہے کیونکہ کپاس کی گانٹھوں کو کاشت کر کے یا تو کھیتوں میں کھلے آسمان تلے یوں ہی چھوڑ دیا گیا تھایا پھر ان پر ترپال ڈال دیئے گئے تھے۔سیلاب آنے کے بعد کپاس کی فصل پانی میں بھیگ گئی اورسخت نقصان ہوا۔اس کے علاوہ گنے اور چاول کی فصل کو بھی سخت نقصان ہوا۔
امریکی تنظیم فوڈاینڈایگریکلچر اورگنائزیشن (ایف اے او)کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں کی وجہ سے فصلوں کا شدید نقصان ہوا ہے اور اسی وجہ سے خوراک کا بحران بھ پیدا ہونے کا خطرہ ہے ۔
ایگری فورم پاکستان کے مطابق حالیہ سیلاب سے ملک میں تقریباً ۰۴۱ ارب روپے مالیت کی فصلو ںکو نقصان پہنچا ہے جس میں۰۸ ارب روپے کی کپاس،۰۴ ارب روپے گنے کی فصل اور۰۲ ارب روپے کی چاول کی فصل شامل ہے۔ ایگری فورم پاکستان کے چیئرمین ابراہیم مغل کے مطابق پاکستان کی برآمدات کا ۳۶ سے ۵۶ فیصد تعلق براہ راست کپاس اور اس کی مصنوعات سے ہوتا ہے لیکن حالیہ سیلاب نے پنجاب اور سندھ میں تقریباً ۲۱ لاکھ ایکڑ سے زیادہ رقبے کی کپاس کی فصل کو بالکل تباہ کر دیا ہے۔زراعت میں ٹیکنولوکی کا استعمال لازمی ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان کو حال ہی میں سیلاب کی وجہ سے فصلوں کا نقصان اٹھانا پرا ہے اور پیداوار میں بڑھوتری کئے بغیرخواراک کی کمی پرقابو نہیںپایا جا سکتا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں زراعت کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا ہے،زراعت میں جدید ٹیکنولوجی کے متعارف ہونے کے بعد اب پاکستان کے لئے ضروری ہو گیا ہے کہ وہ اپنی زرعی پالیسیوں پرنظر ثانی کرے تاکہ پیداوار کو بڑھا کر اپنی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔ فصلوں میں ٹیکنالوجی کے استعمال سے ماحولیاتی آلودگی بڑھانے والی فصلوں پر جراثیم کش ادویات کا استعمال کم ہوجاتا ہے۔اس طرح یہ ٹیکنالوجی ماحولیاتی آلودگی کم کرنے میں بھی معاون ثابت ہوتی ہے۔چین میں بائیو ٹیکنالوجی کے استعمال سے فصلوں پر تقریباً۰۸ فیصدجراثیم کش ادویات کا استعمال کم ہوا ہے۔غذائی اجناس میں خود کفالت حاصل کرنے کے لئے زرعی شعبے میں جدید ٹیکنالوجی اپنانا اشد ضروری ہے۔
۸۰۰۲ءمیں امریکہ کی نیشنل ریسرچ کونسل کی طرف سے تشکیل دی گئی ماہرین پر مشتمل ایک کمیٹی نے امریکہ کے زرعی شعبے کی کارکردگی اور پیداواریت بڑھانے کے لئے جو تجاویز دیں وہ یہ تھیں کہ مختلف شعبوں کے مابین قابل عمل ٹیکنالوجی کے استعمال کو فروغ دیا جائے۔
بدقسمتی سے پاکستان میں مذکورہ اہم مقاصدکے حصول کے سلسلے میں انسٹی ٹیوشنل میکنزم کا فقدان رہا ہے حالانکہ پاکستان میں باصلاحیت لوگوں کی کمی نہیں جبکہ ہمارے پاس زراعت کے لئے زرخیز زمین وسیع رقبے پر موجود ہے البتہ ان قدرتی وسائل سے صحیح معنوں میں استفادے کی ضرورت ہے۔ مگر اب وہ وقت ہے جب جدید تحقیق کے ذریعے فصلوں کا متبادل ڈھونڈا جائے یا پھران کی پیداوار کو دوگنا کیا جائے۔دنیا کی ترقی یافتہ قوموں نے جدید ٹیکنولوجی کے وسیع تر استعمال ،ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ سے مصنوعات میں ورائٹی و جدت اور سروسز میں اعلیٰ درجے کی ویلیو ایڈیشن کر کے ترقی حاصل کی ہے۔پاکستان میں بھی اس وقت ایسے متعدد ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ سنٹرز قائم ہیں جوفصلوں پر تحقیق کر رہے ہیں۔
وفاقی وزیر خوراک و زراعت نذر محمد گوندل کا زراعت کے بارے میں کہنا ہے کہ زرعی و دیگر مصنوعات کی برآمدات کو بڑھانے کیلئے معیار کے علاوہ پیداواری لاگت میں کمی لانے اور بہتر انتظامی اقدامات کی ضرورت ہے، قومی سطح پر اناج کے معیار کی تجزیاتی لیبارٹری کے قیام سے فصلوں کا معیار بہتر بنانے میں مدد ملے گی اور برآمدات کو فروغ حاصل ہو گا۔
وفاقی وزارت خوراک و زراعت میں گندم کے مشیر ڈاکٹرمجیب قاضی کاکہنا ہے کہ پاکستانی سائنسدان پانی کی کمی کے پیش نظر کم پانی کے استعمال سے پیدا ہونے والے چاولوں کی پیداوارکے لیے تحقیق کررہے ہیں، ان چاولوں کی اقسام کو کم پانی کے استعمال سے پیدا کیا جاسکے گا، پاکستان کانیشنل بریڈنگ پروگرام گندم کی پیداوار میں اضافہ کرسکتا ہے، غذائی پیداوار میں اضافے کے ساتھ بڑھتی ہوئی آبادی پر قابو پانا ہوگا۔
اس سے پہلے بھی چاول اور گندم کی اقسام پر تحقیق کی گئی ان کے کافی مثبت نتائج سامنے آئے ہیں۔ٹیکنولوجی کے استعمال سے ایسے فصلیں ایجاد کی گئی ہیں کو کم پانی میں بھی زیادہ پیداوار دے سکتی ہیں۔
حال ہی میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ زرعی ٹیوب ویلز کو شمسی توانائی سے چلایا جائے کیونکہ بجلی بحران شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ان ٹیوب ویلز کو شمسی توانائی پر تبدیل کرنے کے لئے ۶۱ ارب روپے کی سبسڈی کا اعلان کیا گیا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ جب سے کیمیاوی کھادوں اور زہروں کا استعمال شروع ہوا ہے۔ اس وقت سے نہ صرف ہماری زمینیں برباد ہوئی ہیں بلکہ اس سے پانی اور ماحول بھی آلودہ ہوا ہے۔اور جاندار بری طرح متاثر ہوئے ہیں اور آج تک ہو رہے ہیں۔

http://www.technologytimes.pk/mag/2010/nov10/issue01/zarat_biotechnology_urdu.php

No comments:

Post a Comment