Saturday, November 27, 2010

پاکستان اور توانائی کے ذخائر

پاکستان دنیا کے ایک ایسے حصہ میں واقع ہے جہاں قدرت کی طرف سے دیئے گئے انمول خزانے موجود ہیں۔ پاکستان کوخدا تعالیٰ نے بے شمار تحائف سے نوازا ہے۔ پاکستان کے صوبے اپنی اپنی جگہ اہمیت کے حامل ہیں۔ پنجاب کی زمین بہت زرخیز ہے اسی لئے یہ غذائی پیداوار کے لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے جبکہ سندھ قدرتی گیس اور معدنی ذخائرکے لحاظ سے جانا جاتا ہے۔ سندھ میں موجودساحل سیاحوںکواپنی طرف کھنچتا ہے جبکہ سر 
حداور بلوچستان برف کے پگھلاﺅ،پہاڑ، جنگلات اورقدرتی وسائل کے اعتبار سے اہمیت کے حامل ہیں۔
یہاں پر موجود قدرتی مناظر ایک دلکش منظر پیش کرتے ہیں جو دل کو چھوجاتا ہے، سیاح اپنے ماحول کو بدلنے کے لئے اسی طرف کا رخ کرتے ہیں ۔ بلوچستان میں توانائی کے ذخائر موجود ہیں ان میں گیس، جپسم اورکوئلہ قابل ذکر ہیں۔ 
کوئلہ پاکستان کے ہر صوبہ میں پایا جاتا ہے، پاکستان کے پاس اتنی مقدار میں کوئلہ موجود ہے کہ اگر اس کا استعمال در ست انداز میں کیا جا ئے تو نہ صرف کوئلہ کی پیداوار میں پاکستان خود کفیل ہوجائے بلکہ اس کو بیرون ممالک بیچ کر اچھا خاصا زرِ مبادلہ بھی کما سکتا ہے۔ پاکستان میں ۵ئ۸۱بلین ٹن کوئلے کے ذخائر موجود ہیں جس مین سے۳ئ۳ بلین ٹن ذخائر دریافت کئے جا چکے ہیںجبکہ ۱۱بلین ٹن ذخائر محفوظ ہیں۔ سندھ کے علاقہ تھر میں کوئلہ اس مقدار میں موجود ہے کہ اس کا استعمال ہماری ساری تکالیف کو دور کر سکتا ہے، موجود گیس اور بجلی کے بحرانوں کو کوئلے کے استعمال سے حل کیا جاسکتا ہے ۔ ایک اندازہ کے مطابق تھر میں ۰۱ ہزار کلومیٹر پر کوئلے کے ذخائر موجود ہیں۔
 کوئلے اور گیس کے موجودہ ذخائر سے ملک میں نہ صرف بجلی کی پیداوار کو آنے والے سو سال کے لئے مستحکم کیا جاسکتا ہے بلکہ چار بلین ڈالر کی بچت بھی کی جاسکتی ہے جو کہ تیل کی برآمدات پر خرچ کیے جاتے ہیںِ۔اگر تھر میں موجود کوئلے میںسے۰۰۲ بلین ٹن کوئلے کو بجلی بنانے کے لئے استعمال کیا جائے تو پاکستان کا بجلی بحران حل کیا جاسکتا ہے ،اس بحران کو حل کرنے کے لئے موجود ذخائر کو استعمال کرنے کے بعد بھی اتنا کوئلہ موجود ہوگا کہ اِس کو بیچ کر زرِ مبادلہ کمایا جاسکے۔ 
کوئلے کے ذخائر کے صرف ۲فیصد استعمال سے بجلی کی۰۰۰۰۲ میگا واٹ پیداوار حاصل کی جاسکتی ہے اور وہ بھی چالیس سال تک کی طویل مدت تک بغیر کسی لوڈ شیڈنگ کے، اس رپورٹ کے بعد اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کل ذخائر سے کتنی تواناحاصل کی جاسکتی ہے۔
 گزشتہ دور کے ایک سروے کے مطابق کوئلے کے ذخائر سے جو بجلی پیدا کی جائے گی وہ ۶۷.۵پاکستانی روپے فی یونٹ ہوگی جبکہ اسکے علاوہ بجلی کے پیداواری منصوبوں سے حاصل ہونے والی بجلی ۲۷. ۹روپے فی یونٹ ہے او ر یہ آنے والے دنوں میں اور زیادہ مہنگی ہوجائے گی ۔ اس پیداوار کے حصول کے لیے صرف ۰۲۴ بلین پاکستانی روپے درکار ہیں جبکہ دوسری جانب پاکستان میں۰۲۲۱ بلین روپے صرف ٹیکس کی مد میں سالانہ وصول کیے جاتے ہیں۔
ماہرین کی تحقیق کے مطابق پاکستان میں کھربوںمعکب فٹ گیس کے ایسے ذخائر موجود ہیں جنہیں زمین سے نکالنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ جس علاقے میں گیس کے یہ قیمتی ذخائر پائے جاتے ہیں اس کے دو تہائی حصے حکومت کے بجائے قبائل یا شدت پسندوں کی عملداری میں ہیں۔ 
  ۶۰۰۲ میںپاکستان نے ۰۰۳ ملین بیرل ذخائر دریافت کیے، ۰۸۹۱ میں بڑے پیمانے پر ہائیڈرو کاربن کے ذخائر پاکستان کے جنوبی حصہ سے دریافت ہوئے۔ ۹۹۹۱کے مطابق پاکستان ۰۷ مقامات پر تیل کی درےافت کا کام شروع ہو چکا تھا۔ ۸۰۰۲ کی انرجی سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان نے ۷۰۰۲میں قدرتی گیس کے ۵۸.۰ ٹریلین کیوبک میٹر ذخائر ثابت کیے۔ جس میں بڑے پیمانے پر ذخائر سوئی اور ماڑی شامل ہیں، یہ علاقہ سندھ اور بلوچستان میں واقع ہیں۔
آنے والوں دنوں میں ایران اور پاکستان کے درمیان گیس لائن کا کام شروع ہوجائے گا جس کے بعد گیس کی پیداوار اور زیادہ ہوجائے گی یاد رہے کہ ایران اور پاکستان کے مابین گیس کے معاہدے پر دستخط ہو چکے ہیں۔ 
پاکستان نے حال ہی میں زور دیا ہے کہ بجلی کے بحران سے نمٹنے کے لئے اس کے متبادل توانائی کا استعمال کیا جائے اسی لئے کچھ دنوں پہلے فرانس کے تعاون سے گیس ٹربائن بجلی گھر منگوایا گیا ہے۔ اس بجلی گھر پر ۷۷۳ ملین ڈالر لاگت آئی ہے اور اس سے ۰۵۵ میگاواٹ بجلی حاصل کی جاسکے گی ۔ کے ای ایس سی کو اس سال تین بجلی گھر ملنے ہیں جس میں سے یہ پہلا بجلی گھر ہے اس کے بعد دو اور بجلی گھر کراچی بھیجے جائیں گے۔ 
پاکستان کو ضرورت ہے کہ وہ کسی دوسرے ملک کے رحم کرم پر رہنے کی بجائے اپنی ضروریات کو پورا کرنا خود سیکھ لے۔ ملک میں موجود کوئلہ اور گیس ہماری ضروریات کو پورا کرسکتے ہیں۔ 
گیس اگرچہ ان حالات میں کمی کی طرف جا رہی ہے مگر پھر بھی اس کا استعمال ہوسکتا ہے فرق صرف اتنا ہے کہ کوئلے پر زور زیادہ ہوگا۔ پاکستان جیسے ملک جہاں گیس کے اتنے بھرے ذخائر موجود ہوں وہاں گیس کے بحران کا سوچنا تھوڑا عجیب لگتا ہے۔

No comments:

Post a Comment