Tuesday, November 30, 2010

لائیوسٹاک کی ترقی :وقت کی اہم ضرورت

پاکستان کیونکہ شروع ہی سے زرعی ملک ہے اور آزادی سے پہلے پاکستان کے حصہ میں آنے والے علاقوں میں بھی زراعت پر خاص توجہ دی جاتی تھی اسی لئے پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے جب بھی بات کی جائے تو زراعت کا نام ضرور آتا ہے۔ پاکستان کی ۰۸ فیصد آبادی کا انحصار زراعت پر ہے خصوصاَ پنجاب کے علاقوں میں لوگوں نے زراعت کو اپنا پیشہ بنا رکھا ہے۔ پاکستان کی تاریخ کو دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں بیرونی سطح پر کیے جانے والے کاروبار میں بھی زراعت اور مال مویشیخاص اہمیت کے حامل ہیں۔ لوگ گائے، بھینسیں اور بکریاں وغیرہ پال کر ان کا دودھ فروخت کرتے ہیں۔ کیونکہ پنجاب میںمال مویشی پالنے والے افراد پڑھے لکھے نہیں ہیں اس لئے ان لوگوں کا ذریعہ آمدنی بھی صرف اسی پر ہے۔
ہمارے ملک کی آمدنی میں بھی لائیوسٹاک کی بہت اہمیت ہے۔ لائیوسٹاک کا زراعت کی جی ڈی پی میں ۷۳ فیصد حصہ ہوتا ہے جبکہ کل جی ڈی پی میں ۹ فیصد حصہ ہوتا ہے اس اعتبار سے لائیوسٹاک پاکستان کی کمائی یا پھر زرمبادلہ کے لئے بہت اہم ہے۔ پاکستان میں ۸۰۰۲ء۔ ۹۰۰۲ءکے مطابق تقریبا َ۶۲ فیصد بھینسیں، ۴۲ فیصد دمبے، ۵۵ فیصد بکریاں جبکہ ۶ فیصد دوسرے جانور شامل ہیں۔
ایف اے او (فوڈ اینڈ ایگریکلچر اورگنائزیشن) کا سیلاب کے دوران جانوروں سے متعلق نقصانات کے بارے میں کہنا ہے کہ تقریباَ دو لاکھ کی تعداد میں گائیں، بھیسیں اور بکریاں مر چکی ہیں جبکہ یہ تعداد جانوروں کی خوراک نہ ہونے کے باعث مزید بڑھ جائے گی۔ ان جانوروں سے دودھ، دہی اور گوشت کے علاوہ متعدد اشیاءتیار کی جاتی ہیں، حالیہ سیلاب کے بعد ان سب چیزوں میں کمی ہونے کی وجہ سے بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
حالیہ سیلاب کو دنیا میں آنے والی تمام آفات میں سب سے بڑی آفت سمجھا جاتا ہے، دنیا کی تاریخ میں آنے والا سونامی طوفان جو ۴۰۰۲ءمیں آیا تھا اس سے ۰۵ لاکھ افراد متاثر ہوئے تھے اور ۰۱۰۲ءمیں ھیٹی میں جو زلزلہ آیا تھا۔
پاکستان میں سیلاب سے دو کروڑ افراد سے زائد متاثر ہو چکے ہیں۔ سیلاب میں سب سے زیادہ صوبہ خیبرپختونخواہ متاثر ہوا ہے۔ وہاں پر مانسہرہ، چارسدہ، نوشہرہ، سوات، دیر کے علاقوں میں جو تباہی پھیلی ہے ،اس کا مداوا اگلی کئی دہائیوں میں ممکن نہیں ہے۔ لوگوں کے عزیز، مال مویشی اور گھر سب تباہ ہو گیا۔
سیلاب نے پاکستان کو تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، لاکھوں لوگ تباہ تو ہوئے مگر اس کے ساتھ ساتھ ان کا ذریعہ معاش بھی ختم ہو گیا۔ کسان حضرات کے کھیت اور کھلیان تباہ ہوئے، کچی آبادیاں ڈوب گئیں جبکہ لاکھوں کی تعداد میں جانوروں کا نقصان ہوا اور ان جانوروں کے سیلابی ریلے میں بہہ جانے کے ساتھ ہی متعدد افرادکی آمدنی کا ذریعہ بھی ختم ہو گیا۔
ملک میںغذائی اجناس کی بھی شدید قلت کا خطرہ ہے ۔ملک کے وہ علاقے جو پیداوار کے لحاظ سے مشہور ہیں ان علاقوں میں سیلاب نے زبردست تباہی مچائی ہے۔ جنوبی پنجاب ہر سال سارے ملک کی غذائی اجناس کا۱۷ فیصد پیدا کرتا ہے جس میں گندم، گنا، پھل سبزیاں اور کپاس شامل ہیں۔ سیلاب نے زیریں پنجاب کے۵۵ فیصد اور پاکستان کی کل کاشت شدہ زرعی زمین کے ۲۲ فیصد حصے کو ڈبو دیا۔ سیلاب نے نخلستانوں، بیابانوں اور گلستانوں و باغوں کا ستیاناس کردیا ہے فصلوں کی پیداوار کو بھی بڑھانے کی سخت ضرورت ہے۔
ہمارا ملک لائیوسٹاک کے لحاظ سے خاص ترقی کر رہا ہے، اسی سال دنیا میں پاکستان کو لائیوسٹاک کے اعتبار سے چوتھے نمبر پر شمار کیا گیا تھا۔ سیلابی صورتحال نے اتنے جانوروں کا نقصان کر دیا ہے کہ پیداوار میں اچھی خاصی کمی آجائے گی۔ حکومت پاکستان کا کہنا ہے کہ جانوروں کا نقصان تقریبا َایک ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ کا ہوا ہے اور صحیح صورتحال کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا جبکہ ایف اے اونے لائیوسٹاک کے نقصانات کا تخمینہ تین صوبوں (سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخواہ) کے مطابق۲ لاکھ جانور کا لگایا ہے،
ان کے مطابق تقریباَ دو لاکھ سے ذائد جانوروں کا نقصان ہوا ہے۔ اگر پنجاب، گلگت اور آزاد کشمیر کو ساتھ جمع کر دیا جائے تو یہ تعداد ۲ کی بجائے 8 لاکھ کا ہندسہ عبور کر سکتی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ بچ جانیوالے جانوروں کی اکثریت خوراک، چارے کی عدم دستیابی اور ادویات کی قلت کے باعث ہلاکت کا شکار ہو جائیں گے۔
وزارت خوراک و زراعت کو جانوروں کے چارے اور بیماریوں کے علاج کے لئے ۵ئ۷ ملین ڈالر فوری درکا ہیں، اس سلسلے میں ۶ لاکھ ڈالر کی رقم مل چکی ہے۔ سیلاب سے ہلاک ہونے والے مویشی خطرناک ترین بیماریوں کی افزائش کا سبب بنتے ہیں۔
اگر جانوروں کی ہلاکتوں اور بیماریوں میں یونہی اضافہ ہوتا رہا تو پھر ایک طرف جانوروں کے عوارض انسانی جسم میں شامل ہو کر وبائی امراض کو بڑھاوا دیں گے اور دوسری طرف ملک میں گوشت، انڈے اور ڈیری مصنوعات کی شدید ترین کمی سامنے آئے گی جو اپنے ساتھ مہنگائی کا عذاب بھی لائے گی اور اس عذاب سے پہلے ہی متوسط طبقات کی زندگی اجیرن بن رہی ہے۔ مرچنٹس ایوسی ایشن پاکستان نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ ۰۱ لاکھ جانور درآمد کرنے کی اجازت دی جائے۔
اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ وزارت خوراک وزراعت اور ڈیری ڈویلپمنٹ اور لائیوسٹاک کے ماہرین اور حکومتی وزرائ اپنے ہوش و حواس قائم رکھتے ہوئے ان علاقوں کا دورہ کریں جو سیلاب کی لپیٹ میں ہیں اور سیلاب زدہ لوگوں کو حوصلہ دیں تاکہ وہ اپنے نقصان کو پورا کرنے کی ہمت بنا سکیں۔
ایک شخص جو کہ سندھ کا رہائشی ہے اس کا کہنا ہے کہ میرا تمام سامان سیلاب میں بہہ گیا ہے، میری تمام روزی میرے اونٹ اور جانوروں پر منحصر تھی۔ ان مویشیوں سے میں دودھ حاصل کرتا تھا اور اسی طرح مجھے دودھ سے بنائی جانے والی چیزیں مثلاَ دہی، مکھن وغیرہ بھی حاصل ہو جاتا تھا اب میں مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہوں اور سخت مدد کی ضرورت ہے۔
نا جانے ایسے کتنے اورافراد ہیں جن کا سب کچھ سیلاب میں غرق ہو چکا ہے۔ حکومت اس لائیوسٹاک میں دوبارہ قدم جمانے کے لئے کوششیں کر رہی ہے۔ حکومت نے اعلان کیا ہے کہ سیلاب زدہ کسانوں کو بکریاں دی جائیں گی مگریہ اس اعلان کو کب پورا کیا جائے گا یہ کوئی نہیں بتا سکتا۔ متعدد تنظیموں کی یہ کوشش ہے کہ کسانوں یا پھر مویشی پالنے والے افراد کو مویشیوں کی فراہمی ممکن بنائی جا سکے اور اس سلسلے میں ان تنظیموں کا کام جاری ہے تاہم متعدد علاقوں میں لائیوسٹاک کی ترقی کے لئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔


2 comments:

  1. a.o.a dear SM Abid sahib I read your articles I appreciate to your article on livestock. I am also intrusted in dairy /goat farming. It is good step to wakeup concerned authorities.If government helps through loans or providing of animals to affected people, the person can be approve their lives and sport to country.

    Latif Khan Niazi

    ReplyDelete