Sunday, November 28, 2010

لوڈ شیڈنگ اور اسکا حل

پاکستان میں بجلی کی ضروریات دن بدن بڑھتی جا رہی ہیں،ہمیں ہر ۵۱ سے ۰۲ دن بعد یہ بتایا جاتاہے کہ پاکستان میں بجلی کی کمی ہو گئی ہے اور اب لوڈ شیڈنگ کیوں کی جا رہی ہے۔ حکومت نے ۹۰۰۲ءسے لے کر اب تک بے شمار پروجیکٹس کا افتتاح کیا مگر ان میںسے بیشتر پروجیکٹ ابھی تک پایا تکمیل تک نہیں پہنچ سکے ہیں ۔ہمارے دل کو خوش کرنے کے لئے روز یہ خبر ٹی وی پر نشر کر دی جاتی ہے کہ آج فلان جگہ پر پلانٹ کا افتتاح کر دیا گیا اور اس سے بجلی کی ضروریات پوری ہو جائیں گی،اس طرح کی خبریں دل کو خوش کر نے کے لےے پچھلے ایک سال سے زیادہ عرصے سے نشر کی جا رہی ہیں۔بجلی کی کمی کو پورا کرنے کے لئے صرف پاور پلانٹس کا افتتاح ہی نہیں بلکہ ان پلانٹس کا صحیح طرح سے کام کر نا بھی ضروری ہے۔
پاکستان کا شمار ان ممالک میں کیا جاتا ہے جن کو خدا نے بے شمار فوائد عطا کئے ہیں،ان فوائد میں پاکستان کے چار موسم، زرخیز زمین، کوئلہ، گیس اور دوسرے معدنی ذخائر ہیں۔پاکستان کی حکومت ان فوائد سے استفادہ حاصل کر کے اپنی تمام ضروریات کو پورا کر سکتی ہے ۔پاکستان میںکوئلے کا بڑا ذخیرہ تھر میں موجود ہے، اس ذخیرے کا استعمال کر کے نہ صرف ملکی ضروریات کو پورا کیا جا سکتا ہے بلکہ اس کو بیرونی منڈی میں بیچ کر زر مبادلہ بھی کمایا جا سکتا ہے۔
پاکستان اٹامک انرجی کے سائنسدان ڈاکٹر ثمر مبارک مند کا کہنا ہے کہ پاکستان میں تھر کے مقام پر اتنا کوئلہ موجود ہے کہ ہم اگلے سو سال تک اس کا استعمال کر سکتے ہیں۔ ان دنوں ڈاکٹر ثمر مبارک کی زیر قیادت تھر میں ڈرلنگ کی جا رہی ہے اور حال ہی میں وفاقی وزیر پانی وبجلی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگلے سال ۱۱۰۲ءکے مارچ تک کوئلے سے بجلی کی پیداوار شروع کر دی جائے گی،تھرکول کے اس منصوبے سے بجلی کی پیداوار کے بعدسال ہی میںایک سو میگا واٹ بجلی کی تیاری کی جا سکے گی، جبکہ تھرکول کے کوئلے کے ایک فیصد ذخائر کے استعمال سے ۰۰۵ میگاوا ٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ پاکستان میں بجلی کی طلب بڑھنے کی وجہ سے کرایہ کے بجلی گھروں کا انتخاب کیا گیا تھا جبکہ ایک سال گزرنے کے باوجود ابھی تک ان کرایہ کے بجلی گھروں سے پیداوار تو دورابھی تک ان کو مکمل طور پر لگایا بھی نہیں گیا ہے اسی وجہ سے ان کرایہ کے بجلی گھروں میں سے ایک کو تقریباَدوکروڑ کا جرمانہ اور ۲۱ لاکھ ڈالر ہرجانہ کیا گیا ہے۔ہمارے حکومت کی سستی کا اس بات سے ہی لگایا جا سکتا ہے کہ جو پلانٹ بجلی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ہنگامی طور پر ۹۰۰۲ءکے شروع میں لگایا گیا تھا وہ اب تک صحیح طرح سے پیداوار بھی نہیں دے سکا ہے۔
پاکستان میں گیس کا ذخیرہ بھی کچھ کم نہیں ہے صوبہ بلوچستان میں سوئی کے مقام پرگیس کا ذخیرہ موجود ہے۔ یہ ذخیرہ پاکستان پٹرولیم نے ۲۵۹۱ءمیں حاصل کیا تھا،بلوچستان کے مقام سوئی کے کوئیں نمبر ایک کی کھدائی ۰۱ اکتوبر ۱۵۹۱ءمیں کی گئی اور یہ کھدائی برما آئل کمپنی نے کی تھی ،یہ گیس ۰۰۰۴ فٹ کی گہرائی میںبر آمد ہوئی جبکہ اس کا ذخیرہ ۹۶ئ۱۱ ٹریلین کیوبک فٹ تھا ۔ گیس کے اس ذخیرے کو دنیا میں ساتویں جبکہ پاکستان میں پہلے نمبر پر شمار کیا جاتا ہے۔دنیا میں ساتواں بڑا ذخیرہ پاکستان میں ہونے کے باوجود گیس کی کمی پاکستان میں ہونا نہایت حیران کن بات ہے۔
پاکستان میں بجلی اور گیس کی کمی نے عوام کو بہت پریشان کیا ہے، تقریباَ ایک سال سے بجلی اور گیس کی کمی کو برداشت کرنے کے بعد اب عوام نے فیصلہ کیا ہے کہ اس بجلی اور گیس کی کمی کو پورا کرنے کے لئے خود ہی انتظام کیا جائے۔ کچھ لوگوں نے عارضی جنریٹرز لگا رکھے ہیں ،کچھ لوگوں نے بجلی اور گیس پیدا کرنے کے لئے تجربات بھی کئے ہیں اور وہ کامیاب بھی ہوئے ہیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں کتنے قابل لوگ ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میںکسی بھی قابل آدمی کی عزت کروانی پڑھتی ہے،کچھ عرصہ پہلے ایک صاحب جن کا نام شفیق اقبال تھا انھوں نے فروری ۹۰۰۲ میں ۲ کلو واٹ کابائیوفیول پلانٹ اپنے گاﺅں میں لگایا،اسے خود تیار کیا۔شفیق اقبال نے جب ایک بیسویں گریڈ کے سرکاری ملازم سے تعاون کی اپیل کی تو اس نے شفیق اقبال کی حوصلہ شکنی کی اس کے علاوہ اس کو متعدد پریشانیوں سے گزرنا پڑا اور اب جا کر یہ صاحب کچھ پلانٹس وغیرہ بنا رہے ہیں۔یہ سارا واقعہ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان میں ہنرمند افراد تو ہیں مگر ان کی قدر نہیں کی جاتی یہی وجہ ہے کہ ہمیں بجلی اور گیس کمی جیسے معاملات کا سامنا ہے اگر حکومت پیشہ ور افراد کی قدر کرے اور کرپشن کو ختم کر دے تو ساری پریشانیاں دور ہو جائیں۔
بائیوگیس کا ذکر اس لئے کروں گا کیونکہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور یہاں پر لائیو سٹاک بھی موجود ہے اور بائیوگیس آسانی سے پیدا کی جا سکتی ہے۔اس گیس کو پیدا کرنے کے لیے آپ گوبر، پتے،کچھ خاص قسم کی فصلیں اور پھلوں کی بقایا جات اور جو بھی آرگینک محاصل جو کسی کام کا نہ ہو استعمال کر سکتے ہیں۔ پاکستان میں پہلی بار بائیوگیس پلانٹ کو۹۵۹۱ءمیں لگایا گیاجبکہ اس سے گیس کی پیداوار ۳۸۹۱ءمیں شروع ہوئی۔پاکستان میں تقریباَ۵۲ ملین سے زیادہ مال مویشی ہیں اور ان سے روزانہ ۰۱ کلو گرام گوبر کا اخراج ہوتا ہے جس سے ۶۶۶ئ۱ کیوبک فٹ توانائی پیدا کی جا سکتی ہے۔بائیو گیس کو پیدا کرنا بہت ہی آسان اور بہت ہی سستا عمل ہے جس کے ذریعے ہم بہت ہی آسانی سے گھریلو استعمال کے لیے گیس پیدا کر سکتے ہیں۔بائیو گیس کی تیاری کے لیے دو بڑے ڈبے یا ڈرم کا انتظام کرنا ہوتا ہے جس میں ہوا زیادہ آسانی سے داخل نہ ہو سکے۔ایک ڈرم بیکٹیریا اور استعمال شدہ فصلے کے لئے جبکہ دوسرا گیس کے ذخیرے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ ابتداءمیں بیکٹیریا پیدا کرنے کے لیے تھوڑا سا گوبر وغیرہ ڈالنا پڑتا ہے۔ اس کے بعد اس میں کسی بھی قسم کا حیاتیاتی فضلہ ڈالتے رہیںاور بیکٹیریا اپنا کام کرتے رہیں گے۔بائیوگیس کے علاوہ متعدد ایسے طریقے ہیں جن کی بدولت گیس اور بجلی بحران پر قابو پایا جا سکتا ہے ۔
ہماری پاکستانی عوام اتنی قابل ہے کہ خود اپنی ضروریات کوپورا کر سکتی ہے۔صرف تھوڑی بہت حکومتی سرپرستی اور توجہ کہ ضرورت ہے۔پاکستان میں بجلی اور گیس کی ضروریات کو مختلف توانائی کے ذرائع کے استعمال سے پورا کیا جا سکتا ہے صرف حکومت تھوڑی سی توجہ دے اور جو لوگ کچھ کرنا چاہتے ہیں ان کو سامنے آنے دیا جائے نہ کہ ان کی حوصلہ شکنی کی جائے ۔پاکستان کی بجلی اور گیس کی ضروریات پر قابو پانا اشد ضروری ہے اسی لئے لوگوں کو موقع دیا جائے کہ وہ پاکستان کے لئے کچھ خاص کریں اور پاکستان کو توانائی کے بحران سے نکال لیں۔
پاکستان میں بحران پچھلے دو سال سے شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ان پر قابو پانا نہایت ضروری ہو چکا ہے،جلد ہی اگر کوئی موئثر انتظام نہ کیا گیا تو پاکستان میں بجلی اور گیس نا پید ہو جائے گی۔
بجلی بحران پر قابو پانے کے لئے کئے جانے والے تمام حکومتی اقدامات ناکام ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔بحران پر قابو پانے کے لئے ہفتے میں ایک اضافی چھٹی کا بھی اعلان کیا گیا۔اس کے علاوہ موبائل ٹاورز اور سٹریٹ لائٹس کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے پر زور دیا گےا۔متعدد موبائل کمپنیوں نے اپنے ٹاورز کو شمسی توانائی پر منتقل کر دیا ،اس کے باوجود لوڈشیڈنگ میں کوئی کمی نہیں ہوئی ۔حال ہی میں ترکی سے رینٹل پاور پلانٹ کا معاہدہ کیا گیا ہے جو کہ مہنگا نظر آتا ہے۔

http://www.technologytimes.pk/mag/2010/nov10/issue04/loadshedding_urdu.php

No comments:

Post a Comment