Sunday, November 28, 2010

ڈیم ،سستی بجلی اورپانی کا ذخیرہ


پانی نہ صرف انسان کو زندہ رکھنے کے لیے بلکہ اناج سے لے کر گھروں کی تعمیر تک کے لیے ضروری ہے۔یہ خداتعا لی کی طرف سے دی گئی وہ نعمت ہے جس کو اگر طریقہ سے استعمال کر کے فائدہ اٹھایا جائے تو ہریالی ہی ہریالی اور اگر پانی کا ضیاع کیا جائے اور ذخیرہ کا صحیع انتظام نہ کیا جائے تو بڑا نقصان ہے ۔یہ خدا تعالی کی نعمت کو ٹھکرانے کے برابر ہے۔پانی کے فائدہ بہت ہیں یہ صرف سوچنے کی بات ہے کہ اس کا فائدہ کیسے اٹھا یا جائے۔پانی کے ذخیرہ کے لیے جب بھی ڈیم کی بات کی جاتی ہے تو پاکستانی عوام صرف دو بڑے نام( تربیلا اور منگلا )لے کر ہی خاموش ہو جاتی ہے جبکہ پاکستان کو خدا تعالی نے بے شمار نعمتیں عطا کی ہےں ،پاکستان میں متعد د علاقوں میںایسے پہاڑی سلسلے پائے جاتے ہیںجہاں صرف ایک طرف سے دیوار بنا کر پانی کو ذخیرہ کیا جا سکتا ہے اوربڑے ڈیم کو وجود میں لایا جا سکتا ہے صرف عمل کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کی تاریخ کودیکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان میں پچھلے پینتیس سالوں کے دوران کوئی بھی بڑا ڈیم نہیں بنا یا گیا ہے۔ جب بھی کوئی بڑاڈیم بنا نے کی بات کی جا تی ہے توڈیم بنانے کے فیصلے کو سیا ست کی نظر کر دیا جاتا ہے اسی وجہ سے ہر سال ۴۱ لاکھ ایکڑ اراضی سیراب نہیں ہو پاتی اور بنجرہو گئی ہے۔پاکستان میں واپڈا آزادی کے بعد بنائی ہی اس لیے گئے تھی کہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں ڈیمز اور نہریں بنائی جائیں،پانی کے نظام کو بہتر بنایا جائے۔ جب پاکستان آزاد ہوا تو یہا ں آبپاشی کا کو ئی خاص نظام موجود نہیں تھا ، نہری آبپاشی نظام بنانے کے لیے پاکستان کو۰۲ ملین روپے دیئے گئے جس سے زراعت اور آبپاشی کے نظام کو بنایا گیا ۔پاکستان کی کمائی کا دارومدار کیونکہ زراعت پر ہے اورپاکستان کی ۰۹فیصد آبادی زراعت پر منثر ہے اسی لیے آبپاشی کا نظام زرخیزی کے حوالے سے خاص اہمیت کا حامل ہے۔
پاکستان میں واپڈا کو وجود میں آئے۰۳سال سے زیادہ گزر چکے ہیںاور شروات سے اب تک واپڈا نے بہت کا م کیا ہے اسی کی بدولت دو بڑے ڈیمز وجود میں آئے اس کے علاوہ چھوٹے چھوٹے پراجیکٹس پر کام بھی کیا جاتا رہا ہے۔
حالیہ سیلاب نے پاکستان کی ۰۶ سے ۰۷ فیصد آبادی کو متاثر کیا ہے۔اس سیلاب نے لاکھوں لوگوں کے روزگار اور گھر تباہ کر دیئے ہیں۔اگر پاکستانی حکومت ڈیمز کے معاملات کو حل کر کے ڈیم کی تعمیر کر لیتی تو آج ہمارے پاس ڈیم ہو تا اور اتنے لوگ تباہی کا شکار نہ ہوتے۔نہ صرف لگ تباہی سے بچ جاتے بلکہ حالیہ سیلاب کے بعد چھوڑا جانے والا ۴۱ لاکھ ایکڑ فٹ پانی بھی ذخیرہ کیا جا سکتا تھا ۔
پانی خدا کی طرف سے دیا ہو اوہ انمول تحفہ ہے جس سے نہایت سستی بجلی پیدا کی جا سکتی ہے،کوئی بھی متبادل ذرائع پانی کی نسبت سستی بجلی پیدا نہیں کرسکتا۔ایک رپورٹ کے مطابق تربیلا ڈیم میں موجود پانی سے۹۴ پیسے فی یونٹ بجلی بنائی جا رہی ہے جبکہ باقی سارے توانائی کے ذرائع ہائیڈرل پاور سے بہت مہنگے ہیں۔حکومت پچھلے دو سال سے عوام کو بجلی کی کمی کااحساس دلاتے ہوئے دن میں چار سے پانچ گھنٹے لوڈ شیڈنگ کر رہی ہے ۔ بجلی کی اس کمی کو ڈیم کی تعمیر کرکے نہ صرف روکا جا سکتا ہے بلکہ لاکھوں ایکڑ زرعی اراضی بھی پانی سے سیراب کی جا سکتی ہے،توجہ صرف اس بات پر دینے کی ہے کہ ڈیم کو تعمیر کر دیا جائے۔
لوگوں کے گھروں میں بجلی کے زیادہ تر آلات لگے ہوئے ہیں اور یہ لوگ بجلی کا استعمال اپنی استعمال کے مطابق کرتے ہیں، واپڈا کا ضرورت سے زیادہ بل دینے کے بعد بھی لوڈ شیڈنگ برداشت کرنے کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہمارے سیاست دان صرف اپنا فائدہ سوچتے ہیںاور خدا کی دی ہوئی نعمتوں کا فائدہ نہیں اٹھاتے،سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ جب تربیلا ڈیم سے ۴۶ پیسے فی یو نٹ بجلی بنائی جاسکتی ہے تو اسی کے مقابلے کا ڈیم بننے کے بعد کتنی بجلی بنائی جا سکے گی؟
پاکستان اپنی ساری بجلی کی ضروریات کوڈیم بنا کر پورا کر سکتا ہے ،حالیہ دنوں سننے والے ڈیم کے نام جن میں کالا باغ اور دیا میر وہ ڈیم ہیں جو ۵ سے چھ سال میں با آسانی بنائے جا سکتے ہیں ۔تعمیر کا ارادہ کرتے ہی بہت سے مسائل حل ہو جائیں گے ،ایک ٹھوس فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے۔
پچھلے کچھ سالوں سے دیا میر بھاشا ،بگھیاڑ ڈیم اورکالا باغ ڈیم کی تعمیر کی بات کی جا رہی ہے اور اس پر عمل کچھ خاص دکھائی نہیں دے رہا ہے ان کی تعمیر کا مسئلہ حل ہو جائے تو آج بھی پاکستان بجلی اور پانی کے مسائل کو حل کر سکتا ہے۔اس مسئلے کے حل ہونے سے نہ صرف پاکستان میں بجلی اور پانی وافر مقدار میں موجود ہو گا بلکہ باقی توانائی قوتوں کا بھی استعمال کم کیا جا سکے گا۔
واپڈاکے۶۰۰۲ءکے آڈیٹرز کی رپورٹ کے مطابق بھاشا ڈیم کی تعمیر میں تاخیر سے روزانہ پانچ ملین ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔اس کے باوجود کسی بھی ڈیم کی تعمیر شروع نہیں کی گئی۔حالیہ سیلاب سے ہونے والی تباہی کے بعد بھی حکومت کی طرف سے کسی ڈیم کی تعمیر کی بات نہیں کی گئی اور آنے والے دنوں کے لیے بھی اسی بات پر سب سے زیادہ فکر کرنےکی ضرورت ہے کیونکہ ہر سال مون سون بارشیںہوتی ہیںاور اتنا ہی پانی سیلاب کی شکل میں آتا ہے۔ڈیم بنانا اس لیے بھی ضروری ہو چکا ہے کیو نکہ ہر سال مون سون بارشیں ہوتی ہیںان بارشوں کا پانی ہر سال ڈیم نہ بننے کی صورت میںاسی طرح نقصان پہنچائے گا۔
ایک وقت تھا جب کراچی کو روشنیوں کا شہر کہا جاتا تھا اور واقعی کراچی روشنوں کا شہر تھا بھی ،رفتہ رفتہ بجلی سے استعمال ہونیوالی مصنو عات عام ہوتی چلی گئیں سب سے پہلے لوگوں نے فریج اور فریزر کا استعمال شروع کیا۔ دیگر ضروریات زندگی مثلاَ سیلنگ فین ،پیڈ سٹل فین ،واشنگ مشین اورائیرکنڈیشنر وغیرہ متعارف ہوئے اور لوگوں نے ان کو رکھنا شروع کیا۔آج کل کے دور میں بجلی تقریبا ہر گھر میں استعمال کی جا رہی ہے اتنی زیادہ بجلی کی طلب کو حکومت صرف رینٹل پاور ہاﺅس یا پھرچھوٹے چھوٹے ڈیمز پر بنے پاور ہاﺅسزسے پورا نہیں کر سکتی ۔ اس بجلی کی رسد کو پورا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ کوئی ایسا ڈیم موجود ہو جو وسیع رقبے پر ہو اور ڈیم میں زیادہ پانی کو ذخیرہ کرنے کی صلاحیت ہو تاکہ ہائیڈرل پاور کے ذریعہ زیادہ پانی سے سستی بجلی پیدا کی جا سکے تب ہی ہم بجلی کے بحرانوں پر قابو پا سکین گے۔
ہر شہری کو اس بات کا پابند ہونا چاہیے کہ ایسے دور میں جب آپ خود سمجھتے ہیں کہ پچھلے 40 سالوں سے بجلی کی پیداوار کا ایک منصوبہ بھی تعمیر نہیںہوسکا ایسے میں بجلی کی کھپت کہاں تک پہنچ چکی ہو گی جس گھر یا دکان پر صرف ایک پنکھا چل رہا ہوتا تھا اب وہاں پر تین تین ائیر کنیشنر چل رہے ہیں ۔ذرا 40 سال پیچھے چلے جائیں جب بہت سے دیہاتوں میں بجلی کا نام و نشان تک نہ تھا مساجد میں کپڑے کے بنے ہوئے بڑے بڑے ہاتھوں سے چلانے والے پنکھے لگے ہوتے تھے بلکہ گھروں میں ایسے ہی پنکھے نصب تھے جنہیں ایک شخص چلاتا تھا ور دوسرے انکے نیچے سوتے تھے روشنی کیلئے تیل اور روئی کا استعمال کیا جا تا تھا ،لازمی سی با ت ہے کہ جب بجلی زیادہ استعمال ہو گی تو طلب میں بھی اضافہ ہو گا۔اسی لیے ضروری ہے کہ ڈیم بنایا جائے اور سستی بجلی کے حصول کے لیے اقدامات کیے جائیں
 
http://www.technologytimes.pk/mag/2010/sep10/issue03/dam_sasti_bajli.php

No comments:

Post a Comment