Saturday, November 27, 2010

سیلابی تباہی اورمتاثرین کی آبادکاری

پاکستان کی تاریخ میں آنے والے سیلا بوں میں سب سے بڑا اور تباہ کن سیلا ب۸۲جولائی کو ہونے والی بارشوںکے نتیجہ میں بننے والے سیلا ب کو کہا جا رہا ہے ۔اس سیلاب میں ۷۱ ملین افراد تباہی کا شکا ر ہوئے،پنجاب،سندھ اور خیبرپختونخواہ کے پیشتر اضلاع میں نقصان ہوا۔اب تک قریبا ۰۰۰،۰۵۶ سے زیادہ لوگوں کے مقانات تباہ ہوئے ،بیشتر مقامات پر بستیوں اور شاہراہوںکانام ونشان تک مٹ چکا ہے۔سندھ سے آنے والے ریلے نے کراچی اور سندھ کو ملا نے والی شاہراہ کوتباہ کر دیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق متعدد نقصانات میں ۰۵۶۱افراد کی اموات ہوئیں، تقریبا ایک بلین سے زیادہ مالیت کی فصلیں تباہ ہوئیں ،۴ئ۱ملین کابل کاشت رقبہ متاشر ہوا،بیشترپاورپلانٹس کو سیلاب کی وجہ سے بند کرنا پڑا،ار بوں روپے کی مالیت کے مویشی بہ گئے جبکہ ۳۱ لا کھ سے زائد کپاس کی گانٹھیں تباہ ہوئیں۔ اس وقت آدھا پاکستان پانی میں ڈوبا ہوا ہے،پنجاب ، سندھ اور خیبر پختونخواہ کے بیشتر افرادپانی میں گھرے ہوئے ہیں اور امداد کے منتظر ہیں۔ 
 حکومت پاکستان کے مطابق سیلاب سے ۵۰۰۲ءکے زلزلے سے بھی زیادہ تباہی ہوئی ہے مسائل حکومت کی طاقت سے کہیں زیادہ ہیں۔ کشمیر ، گلگت بلستان کے علاقوں میں بھی شدید نقصانات ہوئے ۔ کشمیر کے مختلف مقامات پر لینڈ سلائیڈنگ اور پل تباہ ہوئے جبکہ کئی لوگوں کے مکانات تباہ ہوئے۔ 
خیبر پختونخواہ اورپنجاب میں تباہ کاریاں پھیلانے کے بعد سیلاب نے سندھ کو بھی متاثر کیابارشوں کے دوبارہ زور پکڑنے کے باعث دریاﺅں میں پانی کی سطح ایک مرتبہ پھر بلند ہونا شروع ہو گئی ہے۔ دریائے سندھ میں شدید سیلاب اور طغیانی سے کوٹ ادو میں پا نی داخل ہوا ہے اسی وجہ سے کوٹ ادو کا پاور اسٹیشن بھی بند کر دیا گیا ہے۔کوٹ ادو کے قریب مظفر گڑھ کینال میں شگاف پڑنے سے بڑا علاقہ زیرآب آگیا ہے۔ انتظامیہ نے لوگوں کو شہر خالی کرنے کی وارننگ دے دی ہے ۔
بین الاقوامی امدادی اداروں نے سیلاب زدگان کی مدد کیلئے چار سو ساٹھ ملین ڈالر امداد کی اپیل کی ہے۔ یورپی یونین کی خارجہ امور کی سربراہ کیتھرائن ایشٹن نے یورپی ملکوں کے وزرائے خارجہ کو خط لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ تمام رکن ممالک سیلاب کی تباہی سے نمٹنے میں پاکستان کی بھرپور مدد کریں۔ 
بین الاقوامی ادارے پاکستان میں متاثرہ لوگوں کی مدد کرنے کے لیے بھرپور کوششیں کر رہے ہیں ۔ان سب معاملات کے علاوہ سب سے اہم معاملہ یہ ہے کہ سیلاب زدگان کی دوبارہ آباد کاری کیسے کی جائے۔ سیلاب کی تباہ کاریوں سے متاثرہ افراد کی مدد اور دیکھ بھال سب سے پہلے اہمیت رکھتی ہے۔متاثرین کی زبانوں پر ہر وقت یہ ہے کہ کب پانی ختم ہو گااور کب ہم گھر جائیں گے جبکہ یہ سب باتیں نہ تو متاثرین جانتے ہیں اور نہ ہی حکومت!!
سیلاب کامنہ زور پانی ہزاروں لوگوں کو موت کے منہ میں پہنچا چکا ہے اور اس نے اپنے راستے میں آنے والی ہر چیز کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا لہٰذا اب ایک اور المیہ ہمارا منتظر ہے۔ بھوک سے ہونے والی اموات، امراض اور کم غذائیت کا عفریت!!ان سیلاب زدگان کے لئے نہ تو کوئی گھر موجود ہے نہ ہی ان کے روز مرہ گزر بسر کا کوئی امکان ہے… ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں تباہ حال لوگ آسمان کے نیچے بے آسرا اور بے سہارا پڑے ہوئے ہیں جنہیں کچھ بھی معلوم نہیں کہ انہیں کیا کرنا ہے۔
سیلاب نے وہ تمام کھڑی فصلیں تباہ کر دی ہیں جن سے یہ متاثرین خوراک کی کمی دور کر سکتے تھے اب یہ متاثرین امدادکے منتظرہیں ۔لائیوسٹاک کی تباہی سے مسائل میں اضافہ ہو گا ،پنجاب، سندھ اور خیبرپختونخواہ کے دیہاتوں میں بہہ جانے والے مویشی ان لوگوں کی کمائی کا واحد ذریعہ تھے۔
حکومت پاکستان کے مطابق ملک کا قیمتی ڈھانچہ ایک نسل پیچھے چلا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے عالمی خوراک پروگرام کی رپورٹ کے مطابق ” ملک کی خوراک کے 80 فیصد ذخائر سیلاب سے تباہ ہوچکے ہیں“۔ ہوسکتا ہے یہ تخمینہ غلط ہو، تاہم یہ سمجھنا دشوار نہیں کہ خوراک کے سرکاری ذخائر کو خاصا نقصان پہنچ چکا ہے سال بھر سے غریب لوگ جو اناج کا دانہ دانہ جمع کر رہے تھے، ان کا سب کچھ سیلاب کی تباہی کی نذر ہو چکا ہے۔ چنانچہ غذائی امداد اولین ترجیح ہے۔ 
جو لوگ سیلاب زدگان کی مدد کرنے کے خواہشمند ہیں انہیں یہ حقیقت ذہن نشین کر لینی چاہیے کپڑے لتے دینا بھی بہت اچھا کام ہے لیکن اگر ان سیلاب سے متاثرہ افراد کو آٹا، دالیں، اور کھانے کا تیل دیا جائے تو یہ زیادہ بہتر مدد ہو گی۔ نقد رقم بھی دی جا سکتی ہے کیونکہ اس سے وہ کھانا خرید کر کھا سکتے ہیں اوراپنے تباہ شدہ مکانات کی ازسرنو تعمیر بھی کر سکتے ہیں… بہرحال یہ ایک مثبت علامت ہے کہ لوگوں میں، سیلاب سے ان متاثرہ افراد کی مدد کا شدید جذبہ پایا جاتا ہے جسے صحیح طرح سے بروئے کار لایا جائے تو کافی فرق پڑ سکتا ہے۔
 اس کٹھن دور میں جب پاکستان سیلاب جیسے مسائل سے دوچارہے تب عوام میںییکجہتی کی ضرورت ہے۔اس وقت ہمارے حکمرانوں کو تمام دورے بھول جانے چاہیے ہیںاور تمام تر توجہ متاثرین پر ہونی چاہیے کہ کیسے ان کی آبادکاری کی جا سکے ۔اس کے علاوہ خوراک اور امداد پرسب سے زیادہ توجہ کہ ضرورت ہے ۔

No comments:

Post a Comment