
میڈیا رپورٹس کے اعدادو شمار کے مطابق 2007-08ء میں 212 بلین روپے کے زرعی قرضے2008-09 میں 233 بلین روپے اور 2009-10ءمیں 248 بلین روپے کے قرضے فراہم کئے گئے جبکہ 2007-08ءمیں مقرر کردہ ہدف200 ملین روپے،2008-09میں 250 بلین روپے اور 2009-10ءمیں 260 بلین روپے تھا ۔ ان اعدادوشمار کو دیکھتے ہوئے اندازہ ہوتا ہے کہ گزشتہ تین چار سالوں کے دوران پاکستان میں سوائے 2007-08ءجس میں ہدف سے زیادہ قرضے دیئے گئے باقی تمام سال بینکس قرضوں کا ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ ایسے حالات میں کسان سے کس طرح بہتر پیداوار کی امید لگائی جا سکتی ہے۔ رواں سال2010-11ءکے پہلے دس ماہ کے دوران زرعی شعبے کے لئے بینکوں کی جانب سے 154 بلین روپے کے قرضے جاری کئے گئے، حکومت نے رواں سال قرضوں کا ہدف دو سو ستر ارب روپے رکھا ہے۔ پنجاب کے لئے 210.6سندھ کے لئے37.08خیبر پختونخواہ کے لئے16.06،بلوچستان کے لئے چار جبکہ آزاد کشمیر اورگلگت بلتستان کے لئے 1.3 ارب روپے کاہدف مقررکیاگیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومتی و نجی بینک قرضوں کا ہدف پورا کر پاتے ہیں یانہیں؟ مالی سال2009-10ء کے دوران ملک کے پانچ بڑے بینکوں نے124ارب روپے کے مقررہ ہدف کے بجائے 119 ارب 60 کروڑ روپے کے قرضے فراہم کیے۔
رواں سال اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے ملک میں زراعت اوراس سے ملحقہ چھوٹے کاروبار کی ترقی کے لئے زرعی قرضوں کے ٹارگٹ میں مسلسل اضافے اور فراہمی کوآسان بنانے کے لئے کوشش جاری ہے، اس سلسلے میں گشتی قرضہ اسکیم بھی شروع کی گئی ہے جس کو نقد قرضہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں زرعی ترقیاتی بینک کے برانچ مینیجرز تین دن میںزرعی قرضے جاری کرنے کے پابند ہیں جبکہ بینک کے موبائل کریڈٹ آفیسرزہفتے میں ایک دن کاشتکاروں سے درخواستیں وصول کر رہے ہیں۔ اسٹیٹ بینک کا خود ماننا ہے کہ کہ زائد غیر فعال زرعی قرضے، زرعی قرضہ دہی کے پیچیدہ اور طویل طریقے، زرعی قرضہ جاتی افسران اور جدید زرعی قرضہ جاتی پروڈکٹس کی کمی، بینکوں کی انتظامیہ کی کم دلچسپی، بینکوں کی مالیاتی خدمات کے بارے میں کاشتکاروں کی کم آگاہی، مارکیٹنگ اوراسٹوریج کی سہولتوں کی کمی، پاس بک اوراراضی کے ریکارڈ سے متعلق مسائل، کم آمدنی، ملوں کی جانب سے زرعی پیداوار کی مدمیں ادائیگی میں غیرمعمولی تاخیر اورحکومتی امدادی قیمت وغیرہ کا غیرموءثر نفاذ ایسے بڑے عوامل ہیں جو زرعی قرضہ دہی میں رکاوٹ ہیں، تاہم ان تمام رکاوٹوں کو دور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
پاکستان کی صنعت و تجارت کو پہلے ہی بہت سے اندرونی اور بیرونی چیلنجز کا سامنا ہے اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھاری اضافے سے یہ چیلنجز مزید بڑھ جائیں گے جس سے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے زرعی شعبے کی پیداواری لاگت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ کسانوں کے لئے ٹریکٹروں، ٹیوب ویلوں، ہارویسٹرز اور دیگر زرعی مشینری میں ایندھن ڈالنا مشکل ہو رہا ہے جس کی وجہ ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔
فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ میکنائزیشن اور جدید ٹیکنولوجی کے استعمال پر ہے۔ اسی لئے چاروں صوبائی حکومتیں سبسڈی کے ذریعے جدید ٹیکنولوجی متعارف کر رہی ہیں۔ کسان کی گندم فی من جبکہ ٹھیکہ 40 ہزار فی ایکڑ ہے ٹریکٹر پر ٹیکس، فیول، کھاد پر ٹیکس کے عوض 70 فیصد چھوٹے کسان اور مزارع میں آج بھی سکت نہیں کہ وہ جدید مشینری خرید سکیں ، کسان روایتی طریقوں سے کاشتکاری کرنے پر مجبور ہیں اور یہی وجہ ہے کہ فصلوں کی پیداوار میں خاص اضافہ نہیں ہو پا رہا۔ زرعی آلات اور کمپوننٹ کار امیٹریل گیس، بجلی فیول پہلے بہت مہنگا ہے۔ گیس بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے آلات کی پیداوار50 فیصدرہ گئی ہے۔ سیلز ٹیکس ختم نہ کیا گیا تو جدید ٹیکنولوجی کے عدم استعمال سے ملکی زرعی پیداوار شدید متاثر ہوگی۔
تحریر:سید محمد عابد
No comments:
Post a Comment