Thursday, December 23, 2010

پاکستان میں لائیو سٹاک سیکٹر....(Volume#28)

پاکستان کے وجود میں آنے سے پہلے ہی لوگ زراعت سے وابستہ تھے اس لحاظ سے ہمارے پاکستان کے لوگوں کے لئے لائیو سٹاک بہت اہمیت کا حامل ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی لائیو سٹاک میں ترقی تو آئی ہے مگر مہنگائی نے بھی ہماری پیچھا نہیں چھوڑا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو لائیو سٹاک نے اتنی ترقی نہیں کی جتنی مہنگائی بڑھی ہے ابھی حال ہی میں دودھ کی قیمتوں کو بڑھا دیا گیا ہے۔ اس سال حکومت نے بہت سے نئے منصوبوں کے افتتاح کا اعلان کیا ہے ان منصوبوں میں دودھ دریا منصوبہ کا ذکر بہت زیادہ سننے میں آیا ہے، اس منصوبہ پر ۰۲کروڑ مختص کئے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ حلیب فوڈز اور ٹیٹرا پیک نے بھی ڈیری حب بنانے کی بات کی ہے، حلیب فوڈز کا کہنا ہے کہ ہم نے بہت سے کسانوں کا بھلا کیا ہے۔ حلیب فوڈز کی بدولت بہت سے چھوٹے دودھ فروش روزد کما رہے ہیں،ان منصوبوں سے لائیوسٹاک سکٹر کو بہت فروغ ملنے کی امید ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ منصوبوں کا اعلان کیا جاتا ہے مگر ان پر عمل بہت کم دیکھنے میں آیا ہے۔ حکومت اعلان کرتی ہے کہ منصوبہ شروع کیا گیا ہے مگراس کے بعد سننے میں آتا ہے کہ رقم کی ادائیگی نہ ہونے کے باعث منصوبہ تعطل کا شکار ہے یا پھر کوئی اور مسئلہ ہے۔ اگر یوں ہی رہا تو دودھ دوکانوں میں اسی یا نوے روپے ملے گا,ہر دو سے تین ماہ بعد حکومت دودھ کی قیمت میں اضافہ کا اعلان کرتی ہے عام آدمی آج کل کی زندگی میں بہت مشکل سے روزی کماتا ہے اس کے لئے روز بروز مہنگائی کا سامنا کرنا بہت مشکل ہے ۔حکومت پاکستان ہر سال لائیوسٹاک سیکٹر پر چالیس سے پینتالیس فیصد سالانہ خرچ کرتی ہے اور پاکستان کو اس کے جواب میں کافی ذرمبادلہ غاصل ہوتا ہے۔
پاکستان زراعت کے اس سیکٹر سے زرمبادلہ کماتا ہے جو کہ ۴.۹سے زیادہ ہے۔ اگر اس سیکٹر کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ ۲۰۔۱۰۰۲ میں پاکستان کے کل ۵. ۱۵زرِمبادلہ میں سے ۳. ۲۱فیصد لائیو سٹاک سے حاصل ہوا۔ یہ تعداد ۱۰۰۲ سے اب تک لاکھوں کی تعداد میں بڑھ چکی ہے جس سے کثیر تعداد میں زرِ مبادلہ کمایا جاچکا ہے اور اس سے چوبیس لاکھ سے زیادہ فائدہ حاصل ہوا ہے۔
پاکستان میں دودھ دینے والے جانوروں میں دنبے ، بکری، اونٹ، گائیں، بھینسیں اور دوسرے جانور شامل ہیں ،پاکستان میں بکنے والا گوشت مہنگائی کے لحاظ سے مہنگا ہوتا جارہا ہے جو کبھی۰۸ یا۰۹روپے کلو ملا کرتا تھا آج کل ۰۰۱ کی بجائے دو اڑھائی سو میں فروخت ہوتا ہے۔
پاکستان میں لائیو سٹاک کی برآمداد۰۰۰۲ میں شروع کی گئی جب جانوروں کو جہاز میں ایک ملک سے دوسرے ملک بھیجا گیا۔ ۱۰۰۲ سے ۲۰۰۲ کے دوران گوشت کی پیداوار میں ۱۲۲ ملین سے ۶۴۱ ملین تک کا اضافہ ہوا ہے۔ یہ پیداوار ۲۰۰۲ سے ۳۰۰۲ میں۵۷۲ ملین اور۳۰۰۲ کے بعد اس میں اضافہ ہوتا رہا ہے۔ ۶۰۔۵۰۰۲کے مطابق پاکستان میں ۴۲فیصد گائیں۔ ۳.۶۲ فیصد بھینسیں، ۹. ۴۲فیصد دنبے ۱. ۶۵فیصد بکریاں جبکہ ۸. ۰فیصد اونٹ تھے جن کا گوشت یا دودھ استعمال کیا جاتا تھا۔ ۰۱۔۹۰۰۲ کے مطابق یہ تعداد اور بھی بڑھ گئی ہے۔
پاکستان میں ۰۱۔۹۰۰۲کے مطابق دودھ کی پیداوار 2.9 اور گوشت کی پیداوار 3.2 فیصد تھی۔ پاکستان اب تک کے لحاظ سے لائیو سٹاک سیکٹر کی پیدوار میں چوتھا بڑا ملک مانا جاتاہے، پاکستان۵۴ بلین لیٹر دودھ کی سالانہ پیداوار کرتا ہے ۔ زیادہ تر دودھ چھوٹے چھوٹے کسانوں سے کم قیمت پر خریداجاتا ہے اور بعد میں اس کی صفائی اور جراثیم سے پاک کر کے اس کو مہنگے داموں منڈیوں میں بیچا جاتا ہے۔ یہ دودھ ہمارے ملک میں بسنے والے لاکھوں غریبوں کی روزی روٹی ہے،اس کو بیچ کر روزانہ کتنے ہی لوگ اپنے اپنے بچوں کا پیٹ پالتے ہیں۔ کسان ہر سال محنت کر کے اپنی بھینسوں کو تیار کرتے ہیں اور ان سے ملنے والے دودھ کو بیچتے رہتے ہیں۔
کسان سالہ سال محنت کر کے اپنی بھینسوں کو تیار کرتے ہیں اور ان سے ملنے والے دودھ کو بیچتے رہتے ہیں،ساہیوال ۔ شکار پور اور فیصل آباد میں پاکستان کے جانوروں کی بڑی منڈیاں لگتی ہیں جہاں جانوروں کی خریدو فروخت کی جاتی ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ دودھ کا کاروبار بہت منافع بخش ہوتا ہے اگر اُسے محنت اور ایمانداری کے ساتھ کیا جائے۔ اسی وجہ سے پاکستان نے لائیو سٹاک سیکٹر میں بہت ترقی کی ہے۔ کوئی بھی گائیں سات سے آٹھ سال تک کسی بھی دودھ بیچنے والے کے لئے فائدہ مند ہوتی ہے اس کے بعد وہ دودھ دینا بند کر دیتی ہے جبکہ بھینس آٹھ سے نو سال تک دودھ دیتی ہے۔
۶۰۔۵۰۰۲ کے مطابق دنیا میں پانچویں نمبر پر دودھ پیدا کرنے والے ممالک میں پاکستان کا شمار کیا جاتاتھا جبکہ پاکستان کی پیداواری صلاحیت بڑھنے کے بعد اب ۰۱۔۹۰۰۲ میںپاکستان چوتھے نمبر پر آچکا ہے۔ دودھ کو چائے، گھی ، دہی اور مکھن بنانے کے لئے استعمال کیا جاتاہے، پاکستان کے شہرلاہور میں سب سے زیادہ کھانے پینے کی اشیاءمیں دودھ اور اسے بنی چیزوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اسکے علاوہ مٹھائیاں اور کھیر وغیرہ میں بھی دودھ ڈالا جاتا ہے، سب سے زیادہ مشہور کھویا ہے جو کہ دودھ سے بنتا ہے اور لوگ اسے بڑے شوق سے کھاتے ہیں۔
دودھ بنانے والی کمپنیاں دودھ کو خام مال کے طور پر لیتی ہیں اور بہت سی دودھ کی نئی اقسام کو پیش کرتی ہیں،ان میں پیسچرائزڈ۔یو ایچ ٹی، کنڈنسڈ، پاﺅڈر اور بہت سی اقسام شامل ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق لاہور میں تین سے چار ملین لیٹر جبکہ کراچی میں پانچ ملین لیٹر دودھ کی روزانہ پیداوار ہوتی ہے ۔ایک گائے کے بچے کو دودھ دینے والے جانور میں تبدیل کر نے کے لیے کسی بھی کسان یا دودھ فروش کوکافی محنت کر نی پڑتی ہے تب جا کر جانور دودھ دینے کے قابل ہوتا ہے۔ ۰۱۔۹۰۰۲کے مطابق پاکستان ۲. ۰۶ملین گوشت جبکہ زندہ جانور ۵.۳۱ملین ڈالربرآمد کر رہا ہے ۔ یہ تعداد دو ہزار آٹھ سے نو میں کم تھی اور دو ہزار دس میں بڑھ گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق ملائیشیا نے یہ خواہش ظاہر کی ہے کہ اُسے سالانہ ساٹھ ہزار ملین ٹن گوشت کی فراہمی کی جائے،اب حکو مت اس پر غور کر رہی ہے۔ گوشت کی برآمداد کے لحاظ سے ۷۰۔۶۰۰۲ میں ۷۶. ۷۴ ملین جبکہ ۹۰۔۸۰۰۲ میں ۴۰. ۴۷ ملین ڈالر گوشت برآمد کیا گیا۔ اس اعتبار سے پیداوار میں ۶۵ فیصد اضافہ ہو ا ہے۔
حکومت نے بھوریوالا میں ریسرچ سنٹر اور ٹریننگ انسٹیٹیوٹ قائم کیا ہے جس پر۵۱۴ملین لاگت آئی۔ اس سنٹر کو بنانے کا مقصد دودھ، زراعت اور قدرتی وسائل کو استعمال میں لانا اور پیداوار میں اضافہ کرنا ہے، ان اقدامات سے دودھ اور زراعت کی پیداوار میں نمایاں فرق آئے گا۔ دو ہزار نو اور دس میں حکومت کے مطابق دودھ اور گوشت کی پیداوار۸۷۹۴۴ اور۵۳۹۲ ہزار ٹن رہی جو کہ اوسطاً 3.2 فیصد اور 4.0 فیصد پیداوار میں اضافہ ہے۔ کسی بھی زرعی ملک کی پیداواری صلاحیت کو بڑھانے میں وہاں کی عوام کا بہت بڑا ہاتھ ہوا کرتا ہے۔ ہماری عوام نے بھی بہت محنت کی ہے خصوصاً ہمارے کسان حضرات نے انہیں فصلوں اور گائے، بھینسوں ، بکریوں کی تعداد کو بڑھا کر ملک کو بہت فائدہ دیا ہے، اس سے ہمارے ملک کے زرمبادلہ میں اضافہ ہوا ہے۔

No comments:

Post a Comment