Thursday, December 23, 2010

زراعت میںبائیو ٹیکنولوجی کے اثرات......(Volume#27)

 سید محمد عابد
پاکستان میں زراعت بہت اہمیت کی حامل ہے، ملک میں بسنے والے عوام کا ستر فیصد اسی زراعت سے وابستہ ہے۔ اگر ہم زراعت کو چھوڑ کر بات کریں تو دس فیصد افراد کاروبار سے وابستہ ہیں اور باقی مختلف اداروں میں ملازمت کرتے ہیں۔
پاکستان کی برآمداد کا دارومدار زراعت کے پیشے سے ہی منسلک ہے پاکستان میں پیدا ہونے والا چاول، کپاس ، گندم، چینی اور اسکے علاوہ بہت سی اقسام کی فصلیں اہمیت کی حامل ہیں ۔ پاکستان ان فصلوں کو بین الاقوامی منڈی میں بیچ کر کثیر زرِ مبادلہ کماتا ہے۔ پاکستان ان بڑھتی ہوئی فصلوں میں بائیو ٹیکنالوجی کا کافی حد تک ہاتھ ہے ۔ پاکستان میں بائیو ٹیکنالوجی کا زراعت میں استعمال 1985ءمیں شروع ہوا ۔ اس وقت پاکستان میں 29 بائیوٹیک انسٹیٹیوٹ اورسینئرز کام کررہے ہیں۔ کچھ سینئرز جی ایم فصلوں پر کام کر رہے ہیں جبکہ زیادہ تر چاول اور کپاس پر کام کر رہے ہیں۔
پاکستان کی اہم فصلوں میں گندم، باجرہ، چاول ، گنا، کپاس اور اس کے علاوہ تیل والے بیج اور بہت سی فصلیں شامل ہیں ۔ پاکستان کی فی ایکڑ پیداوار کے لحاظ سے پاکستان زراعت کے شعبہ میں ترقی کرتا آرہا ہے۔ پاکستان میں پائے جانے والے چاول کی اقسام بہت مشہورہیں۔ ان اقسام میں باسمتی ، سیلا اور بہت سی شامل ہیں۔ بائیو ٹیکنالوجی کچھ ہی عرصہ میں ابھر کے آنے والی وہ سائنس ہے جس نے زندگی کے تقریباً سب ہی شعبوں میں اپنا کمال دکھا یاہے۔ بائیو ٹیکنالوجی نے اُن کاموں کو آسان کر دیا ہے جو پہلے مشکل نظر آتے تھے، بائیو ٹیکنالوجی کے وجود میں آنے سے پہلے زراعت میں کیڑے مار ادویات کا استعمال تو ہوتا تھا مگر اُس میں زہر کی تعداد اتنی زیادہ ہوتی تھی کہ فصلیں بھی خراب ہونے کا اندیشہ تھا۔ بائیو ٹیکنالوجی نے بہتر انداز میں ادویات کا استعمال کیا اور فصلوں کی پیداوار میں اضافہ کا سبب بنی۔
پاکستان کی زراعت میں بائیو ٹیکنالوجی نے بہت جان ڈالی ہے, پاکستان میں پائے جانے والی جی ایم کارٹن اور چاول کی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ کیا گیا ہے ۔ بائیو ٹیکنالوجی نے زرعی پیداوار کو بہتر بنانے، بڑھانے اور پاکستان کی غربت کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیاہے۔
بائیو ٹیکنالوجی کے ذریعے مختلف اقسام کے پھل اور فصلوں کی پیداوار بنائی جاسکتی ہے۔ بائیو ٹیکنالوجی میں پھلوں پر جینیٹک انجینئرنگ میتھڈ اپنایا جاتا ہے جو کہ پھلوں کے اندر ڈی اےن اے کو بدل دیتا ہے اس کے بعد انوکھا پھل جنم لیتا ہے۔ بائیو ٹیکنالوجی کے ذریعہ پاکستان میں تحقیق بہت سی یونیورسٹیز اور انسٹیٹیوٹس میں کی جارہی ہےں ۔ پاکستان کے تین سو سائنسدان اس ریسرچ سینٹرز پر کام کر رہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق آخری تین چار سالوں میں 17 ملین ڈالر بائیو ٹیکنالوجی کی تحقیق اور اس سے آبادکاری پر خرچ ہوچکے ہیں۔
پاکستان میں پہلا ٹریننگ کورس نیو کلیئر انسٹیٹیوٹ آف ایگلریکلچر اینڈ بائیو ٹیکنالوجی فیصل آباد نے کرایا جس میں نیشنل سینٹر آف بائیو ٹیکنالوجی اینڈ جینیٹک انجینئرنگ National Central Of Biological And Genetic Engenering)کے عمل میں آنے کا فیصلہ کیا گیا۔ پھر اس کے بعد امریکی تنظیم یونائڈو (United Nation Industrial Development Organization) کے تعاون سے ایک اور ادارہ عمل میں آیا جس کا نام آئی سی جی ای بی(International Center For Genetic Engenering And Biotechnology) (ICGEB) رکھا گیا۔
پاکستان میں زیادہ تر فصلیں بائیو ٹیکنالوجی کو استعمال کر کے بہتری کی طرف آئی ہیں۔ اِن فصلوں میں پاکستان کی سب سے زیادہ مشہور فصلیں شامل ہیں۔ ٹماٹر۔ گنا۔ تمباکو۔ آلو اور اس کے علاوہ بے شمار فصلوں کو بائیو ٹیکنالوجی کے ذریعہ پیداوار میں بڑھایا گیا ہے۔ بائیو ٹیکنالوجی کے استعمال نے ان فصلوں کو نہ صرف بڑھایاہے بلکہ ان بہت سی نئی اقسام کو بھی جنم دیا ہے۔بائیو ٹیکنالوجی سے سیم زدہ علاقوں کو قابلِ کاشت بنانے کے بہت سے تجربات کئے گئے ہیں اور ہمارا یہ مسئلہ بائیو ٹیکنالوجی نے حل کر دیاہے۔ اب بائیو ٹیکنالوجی کے استعمال سے سیم زدہ زمین کاشت کے قابل بنائی جاسکتی ہے۔
پاکستا میں پائے جانے والے باسمتی چاول پر بائیو ٹیکنالوجی کے ذریعے تجربات کئے گئے ہیں۔ اس کے بعد کچھ ہی عرصہ پہلے باسمتی کی نئی قسم وجود میں آئی ہے۔ باسمتی چاول کے علاوہ گنا۔ آلو اور ٹماٹر پر بھی تجربات کئے جارہے ہیں، اور ان میں بہتر نتائج دیکھنے میں آرہے ہیں۔ پاکستان میں دس جی ایم فصلوں کے کیسز نیشنل بائیو سیفٹی کمیٹی کو جمع کرائے گئے ہیں جو ابھی تصدیق ہونے ہیں۔ پاکستان نے زرعی شعبہ میں بائیو ٹیکنالوجی کی مدد سے بہت تحقیق کی ہے اور نتیجہ میں بہت سی جی ایم فصلیں وجود میں آئی ہیں۔

No comments:

Post a Comment