Monday, March 21, 2011

گندم کے گودام

سید محمد عابد

ہمارے ملک میں گندم کی پیداوار کثرت سے ہوتی ہے،ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں گندم کی کل سالانہ پیداوار تقریباً بائیس ملین ٹن ہے جو کہ ملکی خوراک کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے کافی ہے اس کے باوجود عوام کو آٹے کابحران جیسے حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ عوام کو آٹے کے حصول کے لئے یوٹیلٹی اسٹورز کے باہر قطار میں کھڑا ہونا پڑتا ہے جبکہ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ ان اسٹورز کے باہر آٹے کی فراہمی کے دوران بھگدڑ مچ گئی اور متعدد لوگوں کو تکلیف کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان میں کئے جانے والے ایک سروے کی رپورٹ کے مطابق گندم کی فصل پاکستان کے تقریبا تمام علاقوں میں کاشت کی جاتی ہے۔ ملک کی مجموعی زرعی پیداوار میں اس کا کل حصہ 12.7 فیصد بنتا ہے جبکہ مجموعی ملکی شرح نمو (جی ڈی پی) میں اس کا حصہ تقریبا 2.6فیصد ہے۔اس لیے پاکستان میں گندم کی اہمیت سے انکار نا ممکن ہے۔
سرکاری اعدادو شمار کے مطابق پاکستان مین گندم ذخیرہ کرنے کی کل ملکی صلاحیت 5.2 ملین ٹن کے قریب ہے جس میں سے 1.3 ملین ٹن پاسکو، 2.45 ملین ٹن محکمہ خوراک پنجاب، 0.71 ملین ٹن سندھ، 0.16 ملین ٹن سرحد جبکہ باقی محکمہ خوراک بلوچستان کے پاس ہے۔
پاکستان گندم کی پیداوار کے اعتبار سے ایشیاءمیں چوتھے جبکہ دنیا میں نویں نمبر پر شمار کیا جاتا ہے۔ اتنی مقدار میں گندم پیدا کرنے کے بعد بھی عوام کو خوراک کے مسائل کا سامنا کیوں کرنا پڑتا ہے؟ ہمارے ملک کے کسان گندم کی پیداوار بڑھانے کے لئے اپنی تمام کوششیں کر رہے ہیں، حکومتی ادارے اور ریسرچ سنٹرز گندم کی نئی نئی اقسام تیار کر رہے ہیں، گندم کی بہتر پیداوار کے باوجود گندم بیرون ممالک سے منگوانے کی بات کیوںکی جاتی ہے۔ مسئلہ کچھ یوں ہے کہ حکومت گندم کی پیداوار پر تو توجہ دے رہی ہے مگر گندم کوذخیرہ کرنے کے کوئی معقول انتظامات نہیں ہیں۔
اکتوبر 2010ءمیں سیلاب کے باعث گندم کے گوداموں کو سخت نقصان پہنچا جس سے خوراک کی کمی کا مسئلہ پیدا ہو گیا۔ سیلاب کے دوران گندم کی تباہی کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ گندم کے گودام برائے نام تھے جس کی وجہ سے فصلوں کو کٹائی کے بعد کھیتوں میں ہی ترپال ڈھک کر چھوڑ دیا گیا۔ اگر گندم کو ذخیرہ کرنے کے لئے گوداموں کا معقول انتظام ہوتا تو نہ صرف فصل محفوظ رہتی بلکہ کروڑوں روپے کے نقصان سے بھی بچا جا سکتا تھا۔ سیلاب کے باعث تباہی ہونے کے باوجود ابھی تک گندم کی بوریوں کو ترپال ڈھک کر چھوڑدیا جاتا ہے گویا صرف فرض پورا کیا جا رہا ہے، نئے گوداموں کا کوئی خاص انتظام نظر نہیں آ رہا ہے۔ سابق وزیر خوراک و زراعت نذر محمد گوندل کا کہنا ہے کہ پاکستان میںخوراک کو محفوظ کرنے کے بہتر انتظامات ہیں جبکہ میڈیا رپورٹس کے مطابق گندم کے گوداموں کی صورتحال یہ ہے کہ محفوظ شدے خوراک کو کیڑے کے حملے کا خطرہ رہتا ہے۔
ٹنڈو غلام علی میں واقع محکمہ خوراک کے گودام کے کمرہ نمبر2 میں رکھی ہزاروں گندم کی بوریوں کو کیڑا لگ گیا ہے۔ گودام میں 25639 بوریاں ذخیرہ ہیں جن کی مالیت کروڑوں روپے بتائی جاتی ہے۔ گودام پر تعینات سپروائزرشفیع محمد نظامانی کا کہنا ہے کہ اکثر بارشوں اور موسم کی تبدیلی کے باعث گودام میں ذخیرہ کی جانے والی گندم میں پہلے مرحلے میں سرا (کیڑے)جو کہ بعد ازاں گڈر میں تبدیل ہوکر گندم کو متاثر کرتا ہے۔مذکورہ کیڑے کے حملے کو روکنے کے لئے اسپرے کر دیا گیا ہے۔ جب گندم کو محفوظ کرنے کے لئے مناسب انتظامات نہیں ہوں گے تو کیڑوں کا حملہ اور محفوظ شدہ خوراک کی تباہی جیسے معاملات کاپیدا ہونا لازمی بات ہے۔ خود پاسکو کے گوداموں کا ہی جائزہ لے لیا جائے تو گندم کی بوریاں بارش کے موسم میں بھیگتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔
گندم کی فصل انتہائی توجہ کی حامل ہے لیکن پاکستان میں بد قسمتی سے اسے سیاسی مقاصد کےلئے استعمال کیا جاتا ہے خصوصاً حکومتی عہدیدار گندم کی فصل کی پیداوار اور خریداری کے ہدف کے تعین کے وقت غلط اعدادوشمار بیان کر کے عوام کو گمراہ کرتے ہیں۔ انہیں اصل حقیقت نہیں بتائی جاتی۔ اس کا ثبوت موجودہ سیزن میں حکومت کی طرف سے پہلے گندم کے پیداواری اور بعدازاں خریداری اہداف کے اعدادوشمار میں تضادسے لگایا جاسکتا ہے۔کیونکہ ملک میں گندم کے گوداموں کی تعدادبہت کم ہے اس لئے زیادہ پیداوار کو محفوظ کرنا بھی حکومت کے لئے ایک اہم مسئلہ ہے۔ گوداموں کی کمی کی وجہ سے فصل کھیتوں میں ہی پڑی پڑی خراب ہو جاتی ہے۔
خوراک کو ذخیرہ کرنے کے معقول انتظامات نہ ہونے کے باعث کرپشن کے مواقع پیدا ہو رہے ہیں، مٹی ملی گندم کو آٹا بنانے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے جس سے لوگوںکے بیمار ہونے کا خدشہ ہے ۔محکمہ خوراک کے لانڈھی گودام میں تقریبا12 ہزار ٹن ایسی گندم رکھی ہوئی ہے جو 2008ئ۔2009ءکی فصل ہے اور اس گندم میں 30 فیصد تک مٹی شامل ہے ۔
میڈیا پر نشر ہونے والی ایک اور خبر کے مطابق ضلع جامشورو کی تحصیل کوٹری میں واقع بھولاری گندم کے گوداموں میں عملے کی نااہلی، لاپروائی کے باعث ڈیڑھ کروڑ روپے مالیت کی گندم کی 38 ہزار بوریاں کھلے آسمان تلے رکھنے کے سبب خراب ہو گئیں اور بارش کی صورت میں مزید بوریاںخراب ہونے کے خدشہ ہے۔ ان تمام رپورٹس کو دیکھنے کے بعد محسوس تو یوں ہوتا ہے جیسے حکومت نے پچھلے پانچ سال کے دوران گندم کو محفوظ کر نے کے لئے کوئی انتظامات ہی نہیں کئے ہیں۔ اگر حالات یوں ہی چلتے رہے تو ملک میں پھر دوبارہ آٹے کا بحران پیدا ہو سکتا ہے۔
حکومتی ادارے گندم کے وافر ذخائر کو محفوظ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ہیں۔ اِن اداروں کے پاس وافر مقدار میں گندم ذخیرہ کرنے کے وسائل نہیں ہیں۔ حکومتی اداروں میں جدید سہولیات کا فقدان ہے ، انہیں گندم ذخیرہ کرنے والے جدید گوداموں کی کمی کا سامنا ہے۔ اگر سرکاری گوداموں میں بہتری آجائے تو خوراک کے بحران سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے۔ حال ہی میں وزارت خوراک وزراعت کی طرف سے اعلان کیا گیا ہے کہ پاسکو گندم کے ذخیرے کیلئے اسٹیل کے 30 گودام بنائےگی۔اس منصوبے کو چار مرحلوں میں مکمل کیا جائے گا جبکہ منصوبے پر لاگت 11 کروڑ 30 لاکھ ڈالر آئے گی اور کم سے کم 30 مقامات پر دس لاکھ ٹن سے زائد گندم ذخیرہکی جا سکے گی۔ اس منصوبے کی تکمیل کے لئے اسلامی ترقیاتی بنک ساڑھے نو کروڑ ڈالر کا نرم شرائط پر قرضہ فراہم کرے گا جب کہ ایک کروڑ 80 لاکھ ڈالر حکومت پاکستان فراہم کریگی۔ پاکستان میںخوراک کے بحران کا مسئلہ گوداموں کی قلت اور ان کی خستہ حالی کے باعث پیدا ہوتا ہے، اگر ملک میں گوداموں کی تعمیر جلد سے جلد کر دی جائے تو خوراک کے بحران جیسے مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

No comments:

Post a Comment