Sunday, January 16, 2011

نامیاتی کاشتکاری،بہتر پیداوار کی حامل

  Volume 2, Issue 3
سید محمد عابد
زراعت پاکستان کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، ملک کا 70 فیصد زرمبادلہ زراعت ہی کی بدولت حاصل ہوتا ہے۔ زراعت ملک کے ترقی کے لئے اتنی ہی اہم ہے جتنا کہ کسی بھی انسان کے لئے آکسیجن ہوتی ہے۔ پاکستان کی زرعی اجناس بیرونی منڈیوں میں فروخت کی جاتی ہیں جس سےکروڑوں روپے کا زرمبادلہ حاصل ہوتا ہے۔پاکستان میں رہنے والی آبادی کی اکثریت زراعت کے پیشے سے منسلک ہے۔ یہاں پہ بسنے والے زیادہ تر کسان غریب ہیں اور بہت کم رقبے کے مالک ہیں۔پاکستان کی چار فصلیں کپاس، گندم، گنا اور چاول کوبیرونی منڈیوںمےں خاص مقام حاصل ہے ، کسان کاشتکاری اور غلہ بانی کے ذریعے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتے ہیں۔
پاکستان میں فصلوں کی بہترپیداوار حاصل کرنے کے لئے کیڑے مار ادویات ، کھادوں اور دوسرے کیمیائی اجزاءکا استعمال کیا جاتا ہے۔ان کیمیائی اجزاءکا انسانی، حیوانی اور جنگلی حیات کی صحت پرنہایت مضر اثرات پڑتے ہیںجس سے بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ ایک اہم منفی پہلو جو کیمیائی اجزاءکے فصلوں میں استعمال کی بدولت ہوتا ہے وہ فصلوں کی زرخیزی میں کمی ہے، صنعتی کھادوں کے بے دریغ استعمال سے زمین کی پیداواری صلاحیت کمزور پڑ جاتی ہے۔
فصلوں میں استعمال ہونے والی ادویات زمین میں جزب ہو کر زیر زمین پانی میں شامل ہو جاتی ہیں جس سے آلودگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ درحقیقت ان کیمیائی اجزاءکے ہماری فصلوں کی پیداوار اور ماحول پر منفی اثرات رونما ہو رہے ہیں جن سے بچنے کے لئے بہتر طریقہ کاشتکاری اپنانے کی ضرورت ہے۔
یہ بات صحیح ہے کہ جس رفتارسے دنیا ترقی کر رہی ہے اس کے مقابلے میں پاکستان کی ترقی کی رفتار سست ہے، ہماری فصلوں کی پیداوار میں مزید اضافہ ہونے کے بجائے کمی واقع ہونا شروع ہو گئی ہے۔ اگر زرعی پیداوار کے لحاظ سے پچھلے دو سال کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتاہے کہ پاکستان کی کپاس اورگندم کی پیداوار میں کتنی کمی واقع ہوئی ہے اور زرعی اشیاءکی قیمتوںمیں 10 سے 15 فیصد اضافہ بھی ہواہے ۔ پیداوار میںکمی آخر کیوں ہو رہی ہے اور مہنگائی میں کیوں اضافہ ہو رہا ہے؟
ہم جس نظام کاشتکاری پر چل رہے ہیں اس سے ہمیں فائدے کم اور نقصانات زیادہ ہو رہے ہیں۔جدید زراعت کے نام پر کیمیاوی کھادوں اور زہروں کے استعمال کے باوجود ہم نہ پیداواری میں بہتری کر سکے اور نہ ہی اس سے حاصل شدہ زرمبادلہ میں اضافہ ہوا۔ زرعی ماہرین تحقیقی کاوشوں سے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ پاکستان میں قدرتی وسائل کا بہت بے دردی سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ جس کے باعث ماحولیاتی مسائل میں بڑی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ان مسائل کو حل کرنے کے لئے بہتر حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔
زرعی ماہرین کاکہنا ہے کہ پاکستان میں فصلوں کی بہترپیداوار اور ماحول کو صاف ستھرا رکھنے کے لئے نامیاتی کاشتکاری پر ترجیح دی جائے کیونکہ اسے اپنانے سے خوراک میں غذائیت کی سطح کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی اور ماحول دوست فضا بھی قائم ہو گی۔
نامیاتی کاشتکاری کے لئے زیادہ افرادی قوت تو درکار ہو گی مگر حاصل شدہ پیداوار میں اچھا خاصا اضافہ ہو جائے گا۔ نامیاتی کاشتکاری پاکستان کے لئے اس لئے بھی بہتر ہے کیونکہ اس یہ غیر نامیاتی کاشتکاری کی نسبت سستی ہے۔آج کل کیمیائی کھادوں کے نرخوں میں اضافہ کی خبریں روزانہ سننے کو ملتی ہیں اوراسی وجہ سے زرعی اشیاءکی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان کے ماہرین نے ایک ایسی کھاد کی تیاری کی ہے جو نہایت سستی اور زرعی فصلوں کے لئے مفید ہے۔ اس کھاد کی تیاری پاکستان ایگریکلچر ریسرچ کونسل میں کی گئی ہے،کھاد کو نامیاتی اجزاءمثلاَ سبز چارے، گوبر اور دوسری جانوروںکے گند سے تیار کیا گیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ نامیاتی کھادیں فصلوںکی پیداوار میں دوگنا اضافہ کر سکتی ہیں اور یہ عام کھاد کی نسبت سستی بھی ہیں،نامیاتی کھاد کا فصلوں میں استعمال کھادوں کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کو روکنے میں مدد بھی دے گا۔
بین الاقوامی تنظیم فوڈ اینڈ ایگری کلچر اورگنائزیشن (ایف۔ اے۔ او) کی رپورٹ کے مطابق نامیاتی کاشتکاری تاریخی پیداواری نظام ہے جو قدرتی ماحول کو اصل صورت میں قائم رکھنے اور بہتر بنانے کے لئے نہایت موزوں ہے۔ اس نظام کے تحت حاصل ہونے والی انسانی خوراک ہر لحاظ سے صحت کے لئے مفید ہے۔ اس نظام کو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک اپنا رہے ہیں۔ اور اس پیداواری نظام سے پیدا ہونے والی خوراک کی طلب روز بروز بڑھ رہی ہے جو کہ نہایت خوش آئیند بات ہے ۔ہڈسن انسٹی ٹیوٹ کے مشہور سائنسدان اکنامسٹ ڈینیز ایوری کا کہنا ہے کہ نامیاتی کاشتکاری ہی ایک ایسا طریقہ کاشت ہے جو پوری دنیا کو خوراک مہیا کرنے کے لئے دیر پا ہے۔
پاکستان کے متعدد شعور رکھنے والے کسانوں نے نامیاتی کاشتکاری کو اپنانا شروع کر دیا ہے، اس طرح انہیں اپنی محنت کا پھل بھی مل رہا ہے اور آلودگی سے پاک فصلوں کی پیدائش ہو رہی ہے۔ آج کے ترقی یافتہ دور میں تقریباََ دنیا کے 138 ممالک غیر نامیاتی کاشتکاری کو چھوڑ کر نامیاتی کاشتکاری کو اپنا چکے ہیںاور ان ممالک کی زرعی پیداوار میںباتدریج اضافہ ہوا ہے۔ نامیاتی کاشتکاری کے نظام میں انسانی فلاح کا عنصر ہے کیونکہ یہ قدرتی نظام کے تحت ہے اور اس نظام سے ہر کاشتکار پوری طرح آگاہ بھی ہے۔
ایف۔اے۔او کی نامیات سے متعلق تحقیق کے لئے ٹماٹر، سورج مکھی، مکئی اور مٹر کی کاشت نامیاتی اور غیر نامیاتی طریقے سے موازنے کے لئے کی گئی۔ جب نتائج سامنے آئے تو معلوم ہوا کہ نامیاتی کاشتکاری زیادہ منافع بخش اورمفید ہے۔ اس طریقہ کاشت سے اخراجات بھی کم ہوئے اور یہ قدرتی ماحول کے فروغ اور قدرتی پیداواری نظام کے لئے نہایت موزوں پائی گئی۔ جب کہ کیمیاوی کھادوں اور زہروں کے استعمال کے ذریعے کاشتکاری سے ماحول اور زمین کو نقصان پہنچا، پیداواری اخراجات کہیں زیادہ ہوئے۔ اس سے ثابت ہوا کہ نامیاتی کاشتکاری فصلوں کی پیداوار کو بہتر کرنے اور کسانوں کی مشکلات کو حل کرنے کا واحد طریقہ ہے۔
لوگوں نے دیہاتوں اورقصبوں میں مویشی اور دوسرے جانور پال رکھے ہیں جن سے روزانہ کا گوبر وغیرہ ہوتا ہے ،اگر جانوروں کے گوبر اور گند کا استعمال کھاد کے طور پر کھیتوں میںکیا جائے توکھاد کی خریداری کے لئے استعمال ہونے والی رقم بھی بچائی جا سکتی ہے اور زمیں کی زرخیزی میں بھی اضافہ ہو گا۔
پاکستان کو خدا نے زرخیز زمین عطا کی ہے، ہمیں اس زمین کی زرخیزی کا فائدہ اٹھانا چائیے۔ کیمیائی اجزاءکا استعمال کھیتوں کی زرخیزی میں کمی کر رہا ہے،اس کے برعکس نامیاتی اجزاءکا استعمال بہتر ہے کیونکہ اس طریقے سے زہریلے اجزاءکا استعمال نہیں ہوتا جو کہ صحت کے لئے سخت نقصان دہ ہے۔نامیاتی کاشتکاری کے ذریعے حاصل شدہ سبزیاں اور پھل غزائیت سے بھر پور ہوتے ہیں۔ بین الاقوامی منڈیوں میں نامیاتی فصلوں کی خریدوفروخت بڑھ رہی ہے پاکستان میں موسم بہترین ہے ہم نامیاتی فصلوں کی بہتر پیداوار دے سکتے ہیں جن سے اچھا خاصا زرمبادلہ کمایا جا سکتا ہے۔
حکومت پاکستان کو چائیے کہ وہ کسانوں کو نامیاتی کاشتکاری کی طرف راغب کرنے کے لئے موئثرانتظامات کرے تاکہ فصلوں کی پیداوار میں اضافے کے ساتھ ساتھ مہنگائی جیسے مسائل سے بھی نمٹا جا سکے۔

No comments:

Post a Comment