Monday, January 10, 2011

سورج مکھی اور تیل کی پیداوار


Volume 2, Issue 2
پاکستان کو زراعت میں خاص مقام حاصل ہے،پاکستان اپنی بیشتر ضروریات فصلوںکو بیرون ممالک فروخت کر کے پورا کرتا ہے۔پاکستان میں متعدد اقسام کی فصلوں کو کاشت کیا جاتا ہے ان میں کپاس، گنا، چاول اورگندم کی فصلیں شامل ہیں۔ پاکستان کی عوام کیونکہ شروع ہی سے زراعت سے وابستہ ہے اور تحریک پاکستان سے پہلے ہی پاکستان کے حصے میں آنے والے علاقوں میں کاشتکاری کی جاتی تھی اس لئے لوگوں کا زیادہ تر پیشہ بھی زراعت ہی ہے۔سبزیوں کے لئے پنجاب، پھلوں کے لئے سندھ جبکہ خشک مےوہ جات وغیرہ کے لئے خیبرپختونخواہ، بلوچستان اور گلگت بلتستان مشہور ہیں۔
پاکستان میں سورج مکھی کی پیداوارسال 2010ءکے دوران بہتر رہی ہے۔ حکومت نے بہتر اقسام کے بیج ، کھاد اور زرعی ادویات کی فراہمی پر زور دیا ہے۔ جس کے سبب سورج مکھی کے زیر کاشت رقبے میںاضافہ ہوا ہے۔ حال ہی میں بدترین سیلاب نے جہاں فصلوں کو نقصان پہنچایا ہے وہاںسورج مکھی کے زیرکاشت رقبے میں اضافہ کردیا ہے۔ سورج مکھی کی فصل کے لےے زرخیزز مین درکار ہوتی ہے اور سیلاب نے زمین کو زرخیز کردیا ہے جوکہ سورج مکھی اور کینولہ جیسی فصلوں کے لئے موذوں ہے۔ سندھ آباد گار بورڈ کے چیئر مین عبدالمجید نظامانی کے مطابق زیریں سندھ کے وہ علاقے جہاں سیلاب کے باعث چاول کی فصل کو نقصان ہوا تھا زیادہ بہتر طور پر زرخیز ہو گئے ہیں اسی لئے سورج مکھی اور کینولہ کے لئے بہتر ہیں۔ یہ رقبہ تقریبا 1.5 ملین ایکڑ ہے اور سورج مکھی کی اس پیمانے پرکاشت کی بدولت تقریباَ 60 بلین روپے کاملکی پیداوار میں اضافہ ہوگا، اس کے علاوہ خوردنی تیل کی پیداوار میں بھی اضافہ کیا جا سکے گا۔
پاکستان آئل سیڈڈویلپمنٹ بورڈ کے صوبائی ڈائریکٹرسید محمد ناصر علی کے مطابق پاکستان ہر سال تقریبا سو ارب روپے سے زیادہ کے اخراجات صرف خوردنی تیل کی درآمد پر خرچ کرتا ہے۔ ملک میں سورج مکھی اور دیگر تیل دار فصلوں کی کاشت کر کے خوردنی تیل کی پیداوار میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ اگر کسان سورج مکھی کی کاشت پر زور دیںاور حکومت بھی کسانوں کو بہتر سہولتےں فراہم کرے تو ملک خوردنی تیل کی پیداوار میں خود کفیل ہو سکتا ہے۔
ماہرین کے مطابق سورج مکھی کسانوں کے لئے ایک مفید اور نقدآور فصل ہے جو جلد تیار بھی ہو جاتی ہے اور اس سے خوردنی تیل کی پیداوار میں بھی اضافہ کیا جا سکتا ہے۔
فارمرز یونائیٹڈ ایسوسی ایشن کے چیئر مین میاں وسیم اقبال کے مطابق کسان اگر روایتی طریقہ کاشتکاری کی نسبت جدید ٹیکنولوجی کا استعمال کریں تو پیداوار میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ملک میں سورج مکھی کی اوسطَ پیداوار 360 کلو گرام فی ایکڑ ہے اور اسکی موجودہ قیمت1800 روپے فی 40 کلو گرام ہے۔ ان اعدادو شمار کی روشنی میں سورج مکھی کی کاشت سے ہونے والی آمدنی تقریباَ16,200 روپے فی ایکڑ ہے۔ مفروضے کے مطابق اگر 13.5 ملین ٹن سورج مکھی پیدا کیا جائے تو اس سے 38فیصد تیل حاصل کیا جاسکتا ہے جس کی مالیت عالمی منڈی میں 60 بلین روپے ہوگی۔ کسان سورج مکھی کی پیداوار پر خاص توجہ دیں کیونکہ پاکستان میں سورج مکھی کی پیداوار کو باآسانی بڑھایا جا سکتا ہے،یہ ایک ایسی فصل ہے جس کی بہتر پیداوار نہ صرف کسانوں کو فائدہ دے گی بلکہ ملک بھی خوردنی تیل کی پیداوار میں خودکفیل ہوسکتاہے۔
پاکستان میں خوردنی تیل کی پیداوار زیادہ سے زیادہ 38 سے 40 فیصد ہے لہذا عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں اضافے کی بدولت ملک میں بھی خوردنی تیل کو مہنگا کر دیاجاتا ہے تاہم اگر سورج مکھی کی کاشت میں زیا دہ سے زیادہ اضافہ کیا جا سکے تو ان بڑھتی ہوئی قیمتوں میں استحکام لایا جاسکتا ہے۔ چیئرمین آل پاکستان بناسپتی مینوفیکچررز ایسوسی ایشن عبد المجید حاجی محمدکے مطابق پاکستان میں ملکی ضروریات کا 80 فیصد تیل امریکہ، ملائیشیا اور دوسرے ممالک سے درآمد کیا جاتا ہے جبکہ صرف20 فیصد تیل مقامی طور پر تیار کیا جاتا ہے۔
پاکستان کی ترقی میں صحیح وقت پر صحیح فیصلہ ہمیشہ سے ایک رکاوٹ رہا ہے،اگر اس پر قابو پا لیا جائے تو ملک کی ترقی کی رفتار میں دوگنا اضافہ ہو جائے گا۔ان دنوں ملک مےںسورج مکھی کی کاشت کاموسم ہے اور کسان کاشت کے لئے بیج ڈیلروں سے خریدتے ہیں۔ کسانوں کی اس مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے چند ہوس پرست ڈیلر حضرات کسانوں کو پریشان کرتے ہیںاور دونوں ہاتھوں سے لوٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بات اگر صرف مہنگا بیج بیچنے کی ہو تو پھر بھی گزارا کیا جا سکتا ہے مگر یہ لوگ ملاوٹ شدہ بیج کی فروخت کرتے ہیںجس کی بدولت بعض اوقات پیداوار میں بھی کمی واقع ہو جاتی ہے۔ حکومت کوچاہیے کہ وہ ان ڈیلروں کی ناجائز لوٹ مار اورملاوٹ شدہ بیج کی فروخت سے روکنے کے لئے مناسب انتظامات کرے کیونکہ خراب بیج کی وجہ سے پیداوار میں کمی واقع ہوتی ہے۔
ملک میںسورج مکھی کی بہتر پیداوار کے لئے حکومت اور کسان دونوں کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت نے حالیہ سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد سے اب تک سورج مکھی کی پیداوار پر بھرپور زور دیا ہے مگر ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ کسانوں کو مزید محنت کرنی ہو گی تاکہ سورج مکھی کی بہتر پیداوار کے ذریعے خوردنی تیل کو دوسرے ممالک سے درآمد کرنے کے بجائے خودکفالت حاصل کی جائے۔
وزارت خوراک و زراعت کے ذرائع کے مطابق خوردنی تیل کی ملک میں بڑھتی ہوئی مانگ ایک چیلنج کی صورت اختیار کرتی جا رہی ہے جس کی بڑی وجوہات ملک میںبڑھتی ہوئی آبادی اور کھانے کی عادات میں تبدیلیاں ہیں۔ مالی سال2007-08 ءکے دوران خوردنی تیل کی کل ملکی ضروریات 3066 ٹن تھی جس میں 833 ٹن ملکی پیداوار تھی جو کل ضررویات کا 28 فیصد بنتی ہے اور درآمدی بل ایک کھرب تک پہنچ گیا ہے۔
اس درآمدی بل کو ملک میں تیل دار فصلوں کی بہتر اور زیادہ پیداوار کے ذریعے ہی کم کیا جا سکتا ہے۔
حکومت نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ ملک میں خوردنی تیل کی بہتر پیداوارکیلئے یونٹس لگائے جائیں گے اس کے علاوہ تیل دار فصلوںکی پیداوار کے لئے مختلف اقدامات کئے جائیں گے۔ رواں موسم فصل کی اچھی پیداوار کے لئے تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیںکھاد اور بیج کی فراہمی کے لئے مراکز قائم کر دیئے گئے ہیں جہاں بیج وافر مقدار میںموجود ہے۔
محکمہ زراعت حکومت پنجاب کی طرف سے سورج مکھی کے کاشتکاروں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ سورج مکھی کی زیادہ پیداوار کے حصول کیلئے ہائبرڈ اقسام ہائی سن 33، ہائی سن 39، این کے 278، ایف ایچ 331، ڈی کے 4040، جی 101، 64-A-93 کاشت کریں اور شرح بیج کو 2تا اڑھائی کلو گرام فی ایکڑ رکھا جائے نیز بیج کا اگاو ¿ 90فیصد سے زیادہ ہونا چاہیے۔
سورج مکھی کی فصل کی بہتر پیداوار کے لئے حکومت نے احکامات تو جاری کر دیئے ہیں مگر اب تک ہدف کے مقابلے میں نوے فیصد رقبے پرسورج مکھی کی کاشت نہیں کی جا سکی ہے۔
ایگری فورم پاکستان جنوبی پنجاب کے صدر راو ¿ افسر علی خان کے مطابق سورج مکھی کی کاشت شروع ہوئے ایک ماہ گزرجانے کے باوجود مقررہ کردہ ہدف گیارہ لاکھ ایکڑ کی بجائے بمشکل ایک لاکھ ایکڑ اراضی پر سورج مکھی کی بوائی کی جاسکی ہے۔ سورج مکھی کی کاشت میں تاخیر کی وجہ سیلاب سے متاثرہ کسانوں کو حکومتی اعلانات کے باوجود بیج کی عدم فراہمی ہے۔

No comments:

Post a Comment