Thursday, March 15, 2012
Friday, February 17, 2012
Monday, January 30, 2012
Monday, January 23, 2012
Sunday, January 22, 2012
Monday, January 16, 2012
Sunday, January 1, 2012
Monday, December 26, 2011
Friday, December 16, 2011
Saturday, December 10, 2011
Thursday, December 8, 2011
Saturday, November 26, 2011
Saturday, November 19, 2011
Tuesday, November 15, 2011
Friday, November 11, 2011
Monday, October 31, 2011
Sunday, October 23, 2011
بچوں میں سائنس و ٹیکنولوجی کا شعور
سائنس و ٹیکنولوجی کے میدان میں ترقی ہر ملک کے لئے ضروری ہے اور اس کے لئے ہماری نوجوان نسل
خصوصاً بچوں میں سائنس و ٹیکنولوجی کا شعور بیدار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ بچوں کو جو کچھ شروع سے سمجھایا جاتا ہے اور جو کچھ وہ دیکھتے ہیں وہ بھی ویسا ہی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ہر انسان کا مستقبل میں بچپن اور جوانی کے اثرات اور تجربات سے گہرا تعلق رکھتا ہے۔ اگر بچوں کو سائنس و ٹیکنولوجی کے ماحول میں رکھا جائے جہاں وہ روزانہ سائنسی تجربات سے ہمکنار ہوتے ہوں تو وہ ان چیزوں میں دلچسپی لیں گے اور اس طرح بچوں میں سائنس کا شعور پیدا ہوگا۔ ان بچوں کی تربیت ایسے ماحول میں کی جائے جہاں ان کا جوش وجذبہ سائنس وٹیکنولوجی سے وابسطہ ہو تو ملک میں تقریباً ہر دو سے چار دن میں ایک نئی ایجاد سامنے آئے گی۔

سائنس کو اردو میں علم کہتے ہیں اور علم کا مطلب ہوتا ہے جاننا یا آگہی حاصل کرنا، اپنے اردگرد کے ماحول کا مشاہدہ کرنا، مختلف قدرتی چیزوں کے بارے میں سوچنا اور پھر اس پر تجربہ کرنے والے کو سائنسدان کہتے ہیں یعنی سائنسدان وہ ہوتا ہے جو مشاہدہ کرتا ہے اور سوچ کر کوئی نتیجہ اخذ کرتا ہے۔ یہ سب کچھ بچے تو بڑی آسانی سے کر سکتے ہیں اور آج کل کے بچے تو دیکھتے ہی دیکھتے بڑی بڑی چیزیں بنا لیتے ہیں۔ بچوں میں سائنس و ٹیکنولوجی کا شعور بیدار کر کے ہم متعدد ایجادات کو حاصل کر سکتے ہیں۔
Saturday, October 15, 2011
ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی ایک عہد ساز سائنسدان
وطن عزیز پاکستان کو خدا تعالیٰ نے بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے ان میں سے ایک نعمت ملک کی عوام میں موجود بے پناہ ذہانت اور ہنر ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر، ڈاکٹر ثمر مبارک مند، حکیم محمد سعید شہید اور دیگر کا تعلق اسی ارض پاک سے ہے جن کی صلاحیتوں اور قابلیتوں کا ایک زمانہ معترف ہے۔ ان تمام افراد کے بارے میں جان کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں ذہانت، صلاحیت اور قابلیت کی کمی نہیں۔ اس وقت میں جس عظیم اور قابل ہستی کا تذکرہ کرنے لگا ہوں ان کا نام مرحوم ڈاکٹر سلیم الزمان صدیقی ہے اور یہ وہ قابل انسان تھے جنہوں نے نہ صرف پاکستان و ہندوستان بلکہ دنیا بھر میں اپنے سائنسی تجربات کا لوہا منوایا۔ پاکستان ان ہی کی بدولت سائنسی اور صنعتی تحقیق کے راستے پر گامزن ہوا۔
Monday, October 10, 2011
کاربن کریڈٹ ماحول کا تحفظ بھی کاروبار بھی
کاربن کریڈٹ سے مراد ایک معاہدہ ہے جس کی رو سے ایک ملک دوسرے ملک کو ایک ٹن کاربن ڈائی آوکسائیڈ تک خارج کرنے کی اجازت دیتے ہیں اور اس ہدف سے کم کاربن ڈائی اوکسائیڈ کے اخراج پر کریڈٹ دیا جاتا ہے۔
یہ کریڈٹ کسی بھی ملک کی انتظامیہ ہی نہیں بلکہ عام کسان اور صنعت کار بھی کم کاربن ڈائی اوکسائیڈ یا گرین ہاﺅس گیسز کے اخراج کے ذریعے حاصل کر سکتے ہیں۔ اس کاربن کریڈٹ کو دینے کا مقصد دنیا بھر میں کاربن ڈائی اوکسائیڈ اور ماحول پرمنفی اثرات مرتب کرنے والی دیگر گیسز پر قابو پانا ہے۔ کاربن کریڈٹ ایک ایسی چیز ہے جس میں آلودگی کو خریدا اور بیچا جاتا ہے۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں کاربن ڈائی آوکسائیڈ کے اخراج میں سب سے زیادہ حصہ امریکہ، چین، بھارت، روس، جاپان، بھارت، جرمنی، برطانیہ، کینیڈا، جنوبی کوریا اور اٹلی کاہے۔وطن عزیز پاکستان خدا کے فضل و کرم سے ان ممالک میں شامل کیا جاتا ہے جو کاربن ڈائی اوکسائیڈ یا گرین ہاﺅس گیسز کا کم اخراج کرتے ہیں۔پاکستان کے مقابلے میں بھارت گیسزکا اخراج زیادہ کرتا ہے۔ پاکستانی صنعتکار اپنی صنعتوں کے عالمی سطح سے کم کاربن اخراج کے ذریعے ترقی یافتہ ممالک سے کاربن کریڈٹس حاصل کر سکتے ہیں۔
Tuesday, October 4, 2011
کسان، زراعت اور مسائل


Sunday, September 25, 2011
پاکستان صنوبر کے جنگلات کا دوسرا بڑا ذخیرہ
درخت اور سبزہ خدا کا دیا ہو وہ تحفہ ہیں جسے دیکھ کر انسان کی طبیعت خوشگوار اور دل کو راحت و سکون محسوس ہوتا ہے۔ درخت و سبزہ خوبصورتی و شادابی کا وہ منظر ہیں جس کا کوئی نعم البدل نہیں ملتا۔ دنیا میں جنگلات کی شرح 25، 30، 35 اور40 فیصد تک ہے جبکہ پاکستان میں یہ رقبہ چار اعشاریہ دو دو چار ملین ہیکٹر پر مشتمل ہے جو کل رقبہ کاصرف 5 فیصد ہے اور اسے بڑھانے کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے۔ پاکستان کے پہاڑی سلسلوں میںلگے الپائن، سب الپائن، جونیپر، سفیدہ اور دیودار کے اونچے اونچے درختوں خوبصورتی و حسن کا ایک الگ منظر پیش کرتے ہیں۔ پاکستان میں 5 ہزار 7 سو اقسام کے پودے، درخت اور جنگلات پائے جاتے ہیں۔ صرف چترال، کشمیر اور شمالی بلوچستان میں ہی 203 اقسام کے پورے اور درخت پائے جاتے ہیں جو ملک بھر کے کل درختوں کا چار فیصد ہیں۔ نسبتاً کم بلند ہمالیائی سلسلوں میں بارش زیادہ ہوتی ہے اور اسی سبب یہاں دیودار، پائن، گل لالہ اور شاہ بلوط یا بید مجنوں کے گھنے جنگلات کی بھرمار ہے۔
Monday, September 19, 2011
ستمبر16، اوزون کا عالمی دن

Friday, September 16, 2011
چقندر اور اسکے فائدے

Monday, September 12, 2011
ہماری زندگی پر ٹیکنولوجی کے اثرات

Friday, September 2, 2011
جنیاتی علوم اور انسانی زندگی
خدا نے ہر چیز کا ایک نظام بنایا ہے، سب چیزیں اسی نظام کے تحت چل رہی ہیں۔ سائنسدان گزشتہ کئی سالوں سے
اس بات کی تحقیق کر رہے ہیں کہ انسان آخر کیسے وجود میں آیا اور یہ کیسے جی رہا ہے؟ ڈی این اے کی دریافت اور تحقیق نے یہ ثابت کر دیا کہ زندہ اشیا ایسی مکمل اور پیچیدہ ترتیب و ترکیب کا مرکب ہیں کہ یہ حادثاتی طور پر کسی اتفاق کے تحت وجود میں نہیں آسکتیں جب تک یہ کسی بڑے ماہر اور قادر مطلق بنانے والے کی کارگزاری نہ کہی جائے۔ اگر کسی مقام پر اینٹ، پتھر، گارا، مٹی، قالین، ایرکنڈیشنر، ٹی وی اور ریفریجریٹر اور دیگر سامان موجود ہو اور پھر اچانک ایک حادثہ یا اتفاقی واقعہ ایسا ہوجائے کہ یہ سب مل کر بادشاہ سلامت کا محل بن کر ابھر آئے، یہ جادو کی کہانی تو ہوسکتی ہے ایک سائنسی حقیقت کبھی نہیں ہوسکتی۔ ڈی این اے میں چھپے ہوئے اربوں کیمیائی حروف کوجان کر انسان کو اندازہ ہوا کہ ہر انسان کی الگ معلومات ہیں اور وہ جنوم میں ان کوڈ ہوتی ہیں جس کو جان کر ہرانسان کی پیدائش سے لے کر وفات تک کی تمام معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔ جنومز کے ذریعے ہر انسان کیالگ معلومات جیسے آباو اجداد کہاں سے آئے، اس کی اپنی شخصیت کیسی ہے، اس کے طبعی خدوخال، اس کی رنگت، اس کی موروثیت، نسل اور ذہنی استعداد وغیرہ کی مکمل تفصیلات موجود ہوتی ہیں۔ کیا بیماریاں ہیں یا کون سی بیماریاں ہونے کا امکان ہے۔

Sunday, August 21, 2011
ڈیری فارمنگ اور وسائل کی کمی
پاکستان ڈیری فارمنگ کے لحاظ سے دنیا میں ایک اہم مقام رکھتا ہے، وطن عزیز پاکستان میں ڈیری فارمنگ میں سرمایہ کاری کے وسیع مواقع موجود ہیں۔۔دودھ کی بہترین پیداوار دینے والے ممالک میں ہندوستان، چین اور امریکہ کے بعد چوتھےنمبر پر پاکستان کا نام شمار کیا جاتا ہے۔پاکستان میں
جن جانوروں سے دودھ حاصل کیا جاتا ہے ان میں، بھینسیں، بھیڑیں، بکریاں اور اونٹ شامل ہیں۔ قدرت نے ہمارے ملک کو اعلیٰ نسل کی بھینسوں اور گائیوں کی دولت سے نوازا ہے جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم سبز انقلاب برپا کر سکتے ہیں۔ ملک میں مویشیوں کی تعداد تقریباً پانچ کروڑ ہے جن سے سالانہ دودھ کی پیداوار 45 بلین لیٹر لی جاتی ہے۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق ملک میں بھینسوں کی تعداد دو کروڑ تریسٹھ لاکھ سے بڑھ کر دو کروڑ چوراسی لاکھ ہوگئی ہے اور بکریوں کی تعداد پانچ کروڑ چھپن لاکھ سے بڑھ کر چھ کروڑ انیس لاکھ جبکہ بھیڑوں کی تعداد دو کروڑ انچاس لاکھ کے مقابلے میں دو کروڑ پچپن لاکھ ریکارڈ کی گئی ہے جبکہ جی ڈی پی میں اس شعبے کا حصہ 11 فیصد ہے۔ عام مشاہدات کے مطابق ہمارے دودھیلے جانوروں (گائے، بھینس) کی اکثریت اوسطاً 5 سے 6 لیٹر دودھ یومیہ فی جانور پیدا کرتی ہے، جو کہ انتہائی کم اور غیر نفع بخش ہے۔

موجودہ صورتحال کے مطابق ہمارے مویشی پال زمیندار وسائل کی کمی اور افزائش حیوانات کے جدید علوم
Sunday, August 14, 2011
مرکری کے فوائد و نقصانات۔۔۔۔۔۔ حصہ آخر
مرکری کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے، متعدد اشیاءخاص کر تھرما میٹر میں اس کا استعمال پوری دنیا میں عام ہے۔ مرکری کا جیسے جیسے استعمال بڑھتا جا رہا ہے اس کے نقصانات کا بھی اندازہ ہو رہا ہے۔ مرکری انسانی زندگی کے لئے سخت نقصان دہ ہے۔ اس کے نقصان دہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ پانی میں حل نہیں ہوتا۔ مرکری کو مٹی میں دبا دیا جائے اور پھر نکالا جائے تو یہ ویسا ہی ہو گا جیسے اس کو رکھا گیا یعنی اس پر کسی بھی قسم کا کوئی فرق نہیں پڑتا جیسا کہ لوہا یا دوسری چیزیں مٹی میں گل سڑ جاتی ہیں۔ اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مرکری کا دواﺅں میں استعمال انسانی جان کے لئے کتنا تباہ کن ہے۔
Monday, August 8, 2011
مرکری کے فوائد و نقصانات۔۔۔۔۔۔ حصہ اول


Sunday, July 31, 2011
زراعت میں بینکاری کی اہمیت

Monday, July 25, 2011
فش فارمنگ، غذائی ضرورت اور کاروبار


Sunday, July 17, 2011
تھری جی: ٹیلی کوم سروسز کی دنیامیں نئی ٹیکنولوجی


Monday, July 11, 2011
جدید ٹیکنولوجی اور سر سبز انقلاب

حکومتی سطح پر زبانی کلامی زراعت کی ترقی کی باتیں ہورہی ہیں مگر اس معاملے میں سنجیدگی کا فقدان ہے۔ ملک میں جدید ٹیکنولوجی استعمال کرنے کے مشورے دیئے جاتے ہیں لیکن ٹیکس بھی لگا دیا جاتا ہے۔ کسان پہلے ہی غریب ہیں مہنگی ٹیکنولوجی کیسے خریدینگے؟ ان حالات میں کسانوں سے زیادہ پیداوار کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے۔ ہمیں کسانوں کی خوشی کا خیال رکھتے ہوئے کسانوں کو سستی ٹیکنولوجی مہیا کرنی چاہیئے تاکہ فصلوں کی پیداوار میں اضافہ کیا جا سکے۔
Monday, July 4, 2011
پیسچرائزاور غیر پیسچرائزڈ دودھ کا استعمال

پاکستان دنیا میں دودھ کی پیداوار میں چوتھے نمبر پرشمار کیا جاتا ہے۔ پاکستان سے اوپر دودھ کی پیداوار والے ممالک میں بالترتیب ہندوستان، چین اور امریکہ
Thursday, June 30, 2011
کوڑاکرکٹ، توانائی کے حصول کا ذریعہ

دنیا میں متعدد ممالک کوڑے کے ذریعے بجلی اور گیس حاصل کر رہے ہیں، ان میں جاپان، چین، امریکہ، برطانیہ، اسپین، ترکی، نیروبی، سویڈن، یونان اور بھارت کے علاوہ دیگر ممالک شامل ہیں۔ جاپان، بھارت اور چین نے کوڑے سے توانائی حاسل کرنے کے متعدد منصوبوں پر کام شروع کر رکھا ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک کوڑے کی اہمیت سے واقف ہیںاور اس سے توانائی حاصل کر رہے ہیں پھر ہم کیوں اس اہم چیز پر توجہ نہیں دیتے؟ ہم ملک میں روزآنہ اکھٹا ہونے والے ہزاروں ٹن کوڑے سے بجلی پیدا کر سکتے ہیں ، یوں بجلی کی کافی ضروریات بھی پوری ہو جائیں گی اور ماحول بھی صاف ستھرا ہو جائے گا۔
آئی ٹی سکیورٹی ملکی خودمختاری کےلئے ضروری

Sunday, June 12, 2011
رابطوں کا نیا جہاں
تحریر: سید محمد عابد
سوشل میڈیا سے مراد وہ میڈیا ہے جو انٹرنیٹ ایپلیکیشنز اور موبائل ٹیکنولوجی کے ذریعے معلومات اور خبروں کا پھیلاﺅ کرتا ہے۔ گزشتہ دور میں خبروں اور دیگر معلومات کے لئے ٹی وی اور ریڈیو کا سہارا لینا پڑتا تھا مگر اب نئی ٹیکنولوجی کے ذریعے خبروں کا تبادلہ باآسانی انٹرنیٹ بلوگز، سماجی روابط کی ویب سائٹس اور موبائل ایس ایم ایس کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔
Thursday, June 9, 2011
مائیکروہائیڈل وقت کی ضرورت
تحریر: سید محمد عابد
پاکستان بجلی کی کمی کا شکار ہے جس کی وجہ سے لوڈشیڈنگ عام ہے۔ ملک کے تقریباً تمام علاقوں میں ہی لوڈ شیڈنگ کی جا رہی ہے۔ ہر مہینے دو مہینے بعد حکومتی بیان سننے میں آتا ہے کہ رواں سال کے فلاں مہینے تک بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم کر دی جائے گی اور پھرکوئی نئی وجہ بتا دی جاتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہماری حکومت ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی ہے، چند بڑے پروجیکٹس پر کام کیا جا رہا ہے لیکن ان پروجیکٹس کو پایہ تکمیل تک پہنچنے میں ابھی بہت وقت درکار ہے اور فوری لوڈشیدنگ کو قابو کرنا بہت مشکل ہے۔ ہم کب تک لوڈشیڈنگ برداشت کریں گے؟ اس کے بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ہمیں اپنی مدد آپ کے تحت ہی کام کرنا ہو گا۔ کوئی دوسرا ہماری مدد کو آئے یا نہ آئے ہمیں خود اس قابل ہونا ہوگا کہ ہم ہر مصیبت کا ڈٹ کر مقابلہ کر سکیں۔
Sunday, May 29, 2011
Saturday, May 21, 2011
Sunday, May 15, 2011
Monday, May 9, 2011
Saturday, April 30, 2011
Monday, April 25, 2011
Sunday, April 17, 2011
Saturday, April 9, 2011
Saturday, April 2, 2011
Saturday, March 26, 2011
Friday, March 25, 2011
Monday, March 21, 2011
Tuesday, March 8, 2011
Wednesday, March 2, 2011
Saturday, February 19, 2011
Sunday, February 13, 2011
Sunday, February 6, 2011
Sunday, January 30, 2011
Sunday, January 23, 2011
Sunday, January 16, 2011
Monday, January 10, 2011
Sunday, January 2, 2011
Sunday, December 26, 2010
Thursday, December 23, 2010
Tuesday, December 21, 2010
Sunday, December 12, 2010
Tuesday, December 7, 2010
Sunday, December 5, 2010
Tuesday, November 30, 2010
Monday, November 29, 2010
Sunday, November 28, 2010
Saturday, November 27, 2010
Subscribe to:
Posts (Atom)